May 16, 2011

ایک زمین تین شاعر - غالب، داغ، امیر مینائی

اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں اس سے پہلے فارسی کے تین شعراء، مولانا رومی، مولانا عراقی اور علامہ اقبال کی تین غزلیات پیش کی تھیں جو ایک ہی زمین میں تھیں، آج اردو کے تین مشہور شعراء، مرزا غالب، نواب داغ دہلوی اور مُنشی امیر مینائی کی غزلیات پیش کر رہا ہوں جو ایک ہی زمین میں ہیں۔ غالب کی غزل تو انتہائی مشہور ہے، دیگر دونوں غزلیں بھی خوب ہیں۔ غزلیات بشکریہ کاشفی صاحب، اردو محفل فورم۔

غزلِ غالب

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Mirza Ghalib, مرزا غالب
Mirza Ghalib, مرزا غالب
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

------------------

غزلِ داغ

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟

غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا

نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار ملتا، تو ہزار بار ہوتا

گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتی، جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر، کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا

---------------------

غزلِ امیر مینائی

مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Ameer Meenia, امیر مینائی
Ameer Meenia, امیر مینائی
مرے اتّقا کا باعث، تو ہے میری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا، تو شراب خوار ہوتا

میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو، کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
مرے دونوں پہلوؤں میں، دلِ بے قرار ہوتا

دمِ نزع بھی جو وہ بُت، مجھے آ کے مُنہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرم سار ہوتا

نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لَحَد فشار دیتی
سرِ راہِ کوئے قاتل، جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچّا، کہو لاکھ بار کہہ دُوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لَحَد میں، نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک، نہیں اعتبار ہوتا

------------
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن / فَعِلاتُ فاعِلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے۔
اشاری نظام - 1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔
تقطیع
غالب کے مطلعے کی تقطیع درج کر رہا ہوں، تینوں غزلوں کے تمام اشعار اس بحر میں تقطیع ہونگے۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

یِ نہ تھی ہَ - فعلات - 1211
ما رِ قسمت - فاعلاتن - 2212
کہ و صا ل - فعلات - 1211
یار ہوتا - فاعلاتن - 2212

اَ گَ رو ر - فعلات - 1211 (الفِ وصل کا ساقط ہونا نوٹ کریں)۔
جی تِ رہتے - فاعلاتن - 2212
یَ ہِ ان تِ - فعلات - 1211
ظار ہوتا - فاعلاتن - 2212

----------

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو غزل, امیر مینائی, بحر رمل, بحر رمل مثمن مشکول, تقطیع, داغ دہلوی, کلاسیکی اردو شاعری, مرزا غالب

24 comments:

  1. bohat shukria , aik hi zameen men teen ghazlen perhney men bohat lutf aaya,

    aur han yeh dagh sahab to apni tasweer men achey bhaley lag rahey hen, in ki hiju men yeh shyer kiun kaha gaya tha

    sheher e dilly men aaya aik habshi
    aur aatey hi astabal men DAGH hua

    ya yeh waqia hi ghalat hey?

    ahmer

    ReplyDelete
  2. واہ جناب۔ کافی دنوں بعد اعلٰی شاعری پڑھ کے دماغ تر و تازہ ہو گیا۔ بہت شکریہ شئیر کرنے کیلیے۔

    ReplyDelete
  3. بہت ہی عمدہ جناب
    اگرچہ آپ کے بلاگ کا چکر تو لگتا ہی رہتا ہے لیکن کمنٹ آج پہلی بار کر رہا ہوں۔
    تینوں شعرا کرام کی شاعری پڑھ کر لطف آ گیا۔

    ReplyDelete
  4. بہت خوب جناب۔ زبردست۔
    ہماری ایک غزل آپ کی نظرِ کرم کی منتظر ہے۔ اصلاح فرمائیے گا۔
    http://www.ibnezia.com/2011/06/visaal-e-yaar-ka-mausam.html

    ReplyDelete
  5. احمر صاحب، سعد صاحب، فارس صاحب، عمار، آپ سب کا بہت شکریہ، نوازش آپ کی۔

    احمر صاحب، آپ نے جس شعر کا ذکر کیا ہے اس کے ضمن میں کہ واقعی یہ شعر داغ کی ہجو میں مشہور ہے، واللہ اعلم بالصواب۔

    ReplyDelete
  6. بہت خوب جناب۔ زبردست۔ لاجواب

    ReplyDelete
  7. شکریہ نور محمد صاحب، نوازش۔

    ReplyDelete
  8. وارث بھائی ماشااللہ اردو سے آپ کی بے انتہا لگن پر میرا پختہ ایمان ہے اور ایسے کام کرنے کے لیے والہانہ عقیدت و محبت سے کم پر بات نہیں بنتی

    یہ ۳ غزلیں دیکھ کر اسی بحر میں اپنی ایک غزل آپ کی نذر کرتا ہوں۔ اگرچہ ان اساتذہ کے کلام کی لڑی میں اس کو لگانے کا کوئی مقام نہیں لیکن وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں صرف آپ کی آنکھوں کے لیے



    تری بات پر ہمیں کچھ اگر اعتبار ہوتا
    ترا انتظار کرنا کہاں ناگوار ہوتا

    تری دوستی عجب ہے تری دشمنی غضب ہے
    ترا آشنا نہ ہوتا کہاں دل فگار ہوتا

    کوئی سنسنی نہیں ہے یہ کہاں کی عاشقی ہے
    جو میں بیقرار ہوتا تو میں روز خوار ہوتا

    کبھی دشمنی ہے مجھ سے کبھی دوستی کسی سے
    یہاں کچھ تو میری خاطر کبھی سازگار ہوتا

    غمِ عشق جانِ ہستی یہ متاعِ شانِ ہستی
    یہی سازگار ہوتا یہی روزگار ہوتا

    تو ہوس کے جال میں ہے تُو انا کے خول میں ہے
    کسی چال میں نہ آتا جو تُو ہوشیار ہوتا

    سبھی کھوکھلی ہیں باتیں یہ فریب کی ہے دنیا
    ’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘

    وہ جواز مصلحت کے، وہ خرد کی چالبازی
    مرا ترجمان میرا دلِ بیقرار ہوتا

    ترا حال دیکھتا میں مرے غم کو تُو سمجھتا
    جو میں جانتا ہوں تجھ پر اگر آشکار ہوتا

    رہِ حق پہ آجکل تو کوئی قافلہ نہیں ہے
    کہیں ہمسفر نکلتا کوئی جانثار ہوتا

    مری کاہلی کے چرچے ترے پاس کیوں نہ پہنچے
    ترا گھر کہیں تھا ہونا سرِ رہگذار ہوتا

    کبھی جان آشنائی کی فریب کاریوں کو
    جو نگاہ تیز رکھتا تو نہ یوں شکار ہوتا

    میں کہاں قبول کرتا یہ نظامِ بادشاہی
    رہ و رسم کارواں پر اگر اختیار ہوتا

    بڑے پرسکون دن تھے یہ چمن بھی کیا چمن تھا
    نہ گلوں کی بات چھڑتی نہ چمن میں خار ہوتا

    تجھے دیکھ دیکھ حیراں مرا دل ہوا پشیماں
    اے وفا ترا کوئی تو یہاں پاسدار ہوتا

    تجھے دیکھتا ہی رہتا کسی روزنِ کفن سے
    تری دید پر جو اُس دم مرا اختیار ہوتا

    والسلام

    ڈاکٹر سہیل ملک

    ReplyDelete
  9. اجی کیا خوب غزل کہی ہے آپ نے ڈاکٹر سہیل صاحب، لطف آ گیا واللہ۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں، بہت داد قبول کیجیے محترم۔ آپ شکر گزار ہوں کہ یہاں آپ نے اہنے کلام سے مجھے اور دیگر قارئین کو نوازا، نوازش آپ کی۔

    ReplyDelete
  10. تین شعراء کا کلام ایک زمین میں پڑھکر واہ بھائی بہت بہہت اچھا لگا ۔ خوب انتخاب رہتا ہے آپ کا ۔ یہ پڑھنے کے بعدآپ کے لئے حسرت صدیقی کا ایک مصرع عرص کرتی ہوں
    تجھے جس کا ہو ارادہ وہی روبر ہو پیدا

    ڈاکٹر صاحب کا کلام بھی خوب ہے۔۔

    ReplyDelete
  11. بہت شکریہ کوثر بیگ صاحبہ

    ReplyDelete
  12. انٹرنیٹ پر اس سے اچھا ذوق میں نے کسی کا نہئں دیکھا ۔ ۔ ۔ مزہ آ گیا۔

    ReplyDelete
  13. نوازش آپ کی عابد صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید۔

    ReplyDelete
  14. بہت ہی عمدہ. میں نے زندگی میں اتنی مفصل بلاگ ابھی تک نہیں دیکھی. اس قدر معلومات اور ذخیرہ شاعری اک ہی جگہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا. میں اب یہاں پر اکثر حاضری دیتا رہوں گا انشاللہ

    ذوالقرنین

    ReplyDelete
  15. نوازش آپ کی ذوالقرنین صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید جناب۔

    ReplyDelete
  16. Replies
    1. شکریہ انعام اللہ صاحب

      Delete
    2. مکرمی وارث صاحب، آپ کی محنت اور لگن کی داد دینی ، چاہیے۔ آج ولی کی ایک غزل /ہوا ہے سیر کا مشتاق بیتابی سوں من میرا/ تلاش کر رہا تھااسی تعلق سے آپ کا بلاگ دیکھا جی خوش ہو گیا۔ ہر چند کہ میری مطلوبہ غزل نہ مل سکی۔ اگر ہو سکے تو وہ غزل بھی پوسٹ کر دیجیے۔

      Delete
    3. ذرّہ نوازی ہے آپ کی پروفیسر پرویز احمد اعظمی صاحب، اور بلاگ پر خوش آمدید۔ امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔ ولی دکنی کی مذکورہ غزل بھی انشاءاللہ پوسٹ کرنے کی کوشش کرونگا۔

      والسلام

      Delete
  17. اس قدر سرور ایک زمین واہ جی مزے آگئے

    ReplyDelete
  18. "امیر کشور معنی امیر مینائ"

    ReplyDelete