اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں اس سے پہلے فارسی کے تین شعراء، مولانا رومی، مولانا عراقی اور علامہ اقبال کی تین غزلیات پیش کی تھیں جو ایک ہی زمین میں تھیں، آج اردو کے تین مشہور شعراء، مرزا غالب، نواب داغ دہلوی اور مُنشی امیر مینائی کی غزلیات پیش کر رہا ہوں جو ایک ہی زمین میں ہیں۔ غالب کی غزل تو انتہائی مشہور ہے، دیگر دونوں غزلیں بھی خوب ہیں۔ غزلیات بشکریہ کاشفی صاحب، اردو محفل فورم۔
غزلِ غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
Mirza Ghalib, مرزا غالب |
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا
یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
------------------
غزلِ داغ
عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا
کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟
غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا
نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
Dagh Dehlvi, داغ دہلوی |
نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا
ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا
یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار ملتا، تو ہزار بار ہوتا
گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتی، جو نہ بادہ خوار ہوتا
مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا
تمہیں ناز ہو نہ کیونکر، کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا
---------------------
غزلِ امیر مینائی
مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا
ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں خمار ہوتا
Ameer Meenia, امیر مینائی |
جو میں توبہ توڑ سکتا، تو شراب خوار ہوتا
میں ہوں نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا
نہیں پوچھتا ہے مجھ کو، کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا
وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
مرے دونوں پہلوؤں میں، دلِ بے قرار ہوتا
دمِ نزع بھی جو وہ بُت، مجھے آ کے مُنہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرم سار ہوتا
نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لَحَد فشار دیتی
سرِ راہِ کوئے قاتل، جو مرا مزار ہوتا
جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا
میں زباں سے تم کو سچّا، کہو لاکھ بار کہہ دُوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا
مری خاک بھی لَحَد میں، نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک، نہیں اعتبار ہوتا
------------
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن / فَعِلاتُ فاعِلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے۔
اشاری نظام - 1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔
تقطیع
غالب کے مطلعے کی تقطیع درج کر رہا ہوں، تینوں غزلوں کے تمام اشعار اس بحر میں تقطیع ہونگے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
یِ نہ تھی ہَ - فعلات - 1211
ما رِ قسمت - فاعلاتن - 2212
کہ و صا ل - فعلات - 1211
یار ہوتا - فاعلاتن - 2212
اَ گَ رو ر - فعلات - 1211 (الفِ وصل کا ساقط ہونا نوٹ کریں)۔
جی تِ رہتے - فاعلاتن - 2212
یَ ہِ ان تِ - فعلات - 1211
ظار ہوتا - فاعلاتن - 2212
----------
bohat shukria , aik hi zameen men teen ghazlen perhney men bohat lutf aaya,
ReplyDeleteaur han yeh dagh sahab to apni tasweer men achey bhaley lag rahey hen, in ki hiju men yeh shyer kiun kaha gaya tha
sheher e dilly men aaya aik habshi
aur aatey hi astabal men DAGH hua
ya yeh waqia hi ghalat hey?
ahmer
واہ جناب۔ کافی دنوں بعد اعلٰی شاعری پڑھ کے دماغ تر و تازہ ہو گیا۔ بہت شکریہ شئیر کرنے کیلیے۔
ReplyDeleteبہت ہی عمدہ جناب
ReplyDeleteاگرچہ آپ کے بلاگ کا چکر تو لگتا ہی رہتا ہے لیکن کمنٹ آج پہلی بار کر رہا ہوں۔
تینوں شعرا کرام کی شاعری پڑھ کر لطف آ گیا۔
بہت خوب جناب۔ زبردست۔
ReplyDeleteہماری ایک غزل آپ کی نظرِ کرم کی منتظر ہے۔ اصلاح فرمائیے گا۔
http://www.ibnezia.com/2011/06/visaal-e-yaar-ka-mausam.html
احمر صاحب، سعد صاحب، فارس صاحب، عمار، آپ سب کا بہت شکریہ، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteاحمر صاحب، آپ نے جس شعر کا ذکر کیا ہے اس کے ضمن میں کہ واقعی یہ شعر داغ کی ہجو میں مشہور ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
بہت خوب جناب۔ زبردست۔ لاجواب
ReplyDeleteشکریہ نور محمد صاحب، نوازش۔
ReplyDeleteوارث بھائی ماشااللہ اردو سے آپ کی بے انتہا لگن پر میرا پختہ ایمان ہے اور ایسے کام کرنے کے لیے والہانہ عقیدت و محبت سے کم پر بات نہیں بنتی
ReplyDeleteیہ ۳ غزلیں دیکھ کر اسی بحر میں اپنی ایک غزل آپ کی نذر کرتا ہوں۔ اگرچہ ان اساتذہ کے کلام کی لڑی میں اس کو لگانے کا کوئی مقام نہیں لیکن وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں صرف آپ کی آنکھوں کے لیے
تری بات پر ہمیں کچھ اگر اعتبار ہوتا
ترا انتظار کرنا کہاں ناگوار ہوتا
تری دوستی عجب ہے تری دشمنی غضب ہے
ترا آشنا نہ ہوتا کہاں دل فگار ہوتا
کوئی سنسنی نہیں ہے یہ کہاں کی عاشقی ہے
جو میں بیقرار ہوتا تو میں روز خوار ہوتا
کبھی دشمنی ہے مجھ سے کبھی دوستی کسی سے
یہاں کچھ تو میری خاطر کبھی سازگار ہوتا
غمِ عشق جانِ ہستی یہ متاعِ شانِ ہستی
یہی سازگار ہوتا یہی روزگار ہوتا
تو ہوس کے جال میں ہے تُو انا کے خول میں ہے
کسی چال میں نہ آتا جو تُو ہوشیار ہوتا
سبھی کھوکھلی ہیں باتیں یہ فریب کی ہے دنیا
’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘
وہ جواز مصلحت کے، وہ خرد کی چالبازی
مرا ترجمان میرا دلِ بیقرار ہوتا
ترا حال دیکھتا میں مرے غم کو تُو سمجھتا
جو میں جانتا ہوں تجھ پر اگر آشکار ہوتا
رہِ حق پہ آجکل تو کوئی قافلہ نہیں ہے
کہیں ہمسفر نکلتا کوئی جانثار ہوتا
مری کاہلی کے چرچے ترے پاس کیوں نہ پہنچے
ترا گھر کہیں تھا ہونا سرِ رہگذار ہوتا
کبھی جان آشنائی کی فریب کاریوں کو
جو نگاہ تیز رکھتا تو نہ یوں شکار ہوتا
میں کہاں قبول کرتا یہ نظامِ بادشاہی
رہ و رسم کارواں پر اگر اختیار ہوتا
بڑے پرسکون دن تھے یہ چمن بھی کیا چمن تھا
نہ گلوں کی بات چھڑتی نہ چمن میں خار ہوتا
تجھے دیکھ دیکھ حیراں مرا دل ہوا پشیماں
اے وفا ترا کوئی تو یہاں پاسدار ہوتا
تجھے دیکھتا ہی رہتا کسی روزنِ کفن سے
تری دید پر جو اُس دم مرا اختیار ہوتا
والسلام
ڈاکٹر سہیل ملک
اجی کیا خوب غزل کہی ہے آپ نے ڈاکٹر سہیل صاحب، لطف آ گیا واللہ۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں، بہت داد قبول کیجیے محترم۔ آپ شکر گزار ہوں کہ یہاں آپ نے اہنے کلام سے مجھے اور دیگر قارئین کو نوازا، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteتین شعراء کا کلام ایک زمین میں پڑھکر واہ بھائی بہت بہہت اچھا لگا ۔ خوب انتخاب رہتا ہے آپ کا ۔ یہ پڑھنے کے بعدآپ کے لئے حسرت صدیقی کا ایک مصرع عرص کرتی ہوں
ReplyDeleteتجھے جس کا ہو ارادہ وہی روبر ہو پیدا
ڈاکٹر صاحب کا کلام بھی خوب ہے۔۔
بہت شکریہ کوثر بیگ صاحبہ
ReplyDeleteانٹرنیٹ پر اس سے اچھا ذوق میں نے کسی کا نہئں دیکھا ۔ ۔ ۔ مزہ آ گیا۔
ReplyDeleteنوازش آپ کی عابد صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید۔
ReplyDeleteبہت ہی عمدہ. میں نے زندگی میں اتنی مفصل بلاگ ابھی تک نہیں دیکھی. اس قدر معلومات اور ذخیرہ شاعری اک ہی جگہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا. میں اب یہاں پر اکثر حاضری دیتا رہوں گا انشاللہ
ReplyDeleteذوالقرنین
نوازش آپ کی ذوالقرنین صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید جناب۔
ReplyDeleteboht aala bhi Jaan
ReplyDeleteشکریہ انعام اللہ صاحب
Deleteمکرمی وارث صاحب، آپ کی محنت اور لگن کی داد دینی ، چاہیے۔ آج ولی کی ایک غزل /ہوا ہے سیر کا مشتاق بیتابی سوں من میرا/ تلاش کر رہا تھااسی تعلق سے آپ کا بلاگ دیکھا جی خوش ہو گیا۔ ہر چند کہ میری مطلوبہ غزل نہ مل سکی۔ اگر ہو سکے تو وہ غزل بھی پوسٹ کر دیجیے۔
Deleteذرّہ نوازی ہے آپ کی پروفیسر پرویز احمد اعظمی صاحب، اور بلاگ پر خوش آمدید۔ امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔ ولی دکنی کی مذکورہ غزل بھی انشاءاللہ پوسٹ کرنے کی کوشش کرونگا۔
Deleteوالسلام
very nice waris jee.
ReplyDeleteنوازش آپ کی چوہدری صاحب
Deleteاس قدر سرور ایک زمین واہ جی مزے آگئے
ReplyDeleteشکریہ جناب۔
Delete"امیر کشور معنی امیر مینائ"
ReplyDelete