Aug 26, 2011

نظیری نیشاپوری کے کچھ متفرق اشعار

مشہور فارسی شاعر محمد حُسین نظیری نیشاپوری کے کچھ خوبصورت اشعار۔

دل کہ جمع است، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیّت اگر نیست، پریشانی نیست

دل (خاطر) جمع ہے، سو بے سر و سامانی کا کوئی غم نہیں ہے، اگر جمع کرنے کی فکر نہ ہو تو (دنیا میں) کوئی پریشانی نہیں ہے۔
---------

نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہی
چوبِ ہر نخل کہ منبر نشَوَد دار کنم

نہیں ہے میرے جنگل ( خدا کی دنیا) میں کوئی بھی خشک و تر چیز بیکار، جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اس سے سولی بنا لیتا ہوں۔
---------

رُوئے نِکو معالجۂ عمرِ کوتہ ست
ایں نسخہ از علاجِ مسیحا نوشتہ ایم

کسی نیک آدمی کا چہرہ (دیدار) عمرِ کوتاہ کا علاج ہے، یہ نسخہ میں نے مسیحا کے علاج (نسخوں) میں سے لکھا ہے۔
---------

بزیرِ خرقہ نہاں بادہ می خورد صوفی
حکیم و عارف و زاہد ازیں مستند

(ریا کار) صُوفی شراب اپنی گدڑی کے نیچے چھپا کر پیتا ہے (اور اس کے بھائی بند) حکیم، عارف، زاہد سبھی اسی (طرح پینے) سے مست ہیں۔
---------

ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد

یہ نئی رسمیں ہمارے عہد (وعدہ) کی نا امیدی و حسرت و بد نصیبی کی وجہ سے ہیں، دنیا میں عنقا تو کسی کا نامہ بر نہ ہوا تھا۔
---------

مَحبّت در دلِ غم دیدہ الفت بیشتر گیرَد
چراغے را کہ دودے ہست در سر زود در گیرَد

غم دیدہ دل میں محبت بہت اثر کرتی ہے، (جیسا کہ) جس چراغ میں دھواں ہو (یعنی وہ ابھی ابھی بجھا ہو) وہ بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے۔
---------

چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
---------

بغیرِ دل ھمہ نقش و نگار بے معنیست
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدّعا اینجاست

دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق (یعنی دل) جو سیاہ ہو گیا ساری بات اور سارا مدعا تو یہیں ہے یعنی ظاہری نقش و نگار چاہے جتنے بھی خوب ہوں سیاہ دل کے ساتھ بے معنی ہیں۔

ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

اسکے سر سے لیکر اسکے قدموں تک میں جہاں بھی (جس حصے کو بھی) دیکھتا ہوں انکی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے، محبوب کی تعریف سر سے پاؤں تک کر دی ہے۔

ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مکش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست

نظیری، عجز کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا کہ جس راہ سے بھی آئیں انتہا تو یہیں ہے۔
---------

مجلس چو بر شکست تماشا بما رسید
در بزم چوں نماند کسے، جا بما رسید

مجلس جب اختتام کو پہنچی تو ہماری دیکھنے کی باری آئی، جب بزم میں کوئی نہ رہا ہمیں جگہ ملی۔
---------

منظورِ یار گشت نظیری کلامِ ما
بیہودہ صرفِ حرف نکردیم دودہ را

نظیری ہمارا کلام یار کو پسند آ گیا، (تو گویا) ہم نے حرفوں پر فضول سیاہی خرچ نہیں کی۔
---------

سماعِ دُرد کشاں، صُوفیاں چہ می دانند
ز شیوہ ہائے سَمندر، سپند را چہ خبر

تلچھٹ (دُرد) پینے والوں کے سماع کو صُوفی کیا جانیں، آگ میں جل کر زندہ رہنے والے (سمندر) کے طریق کا آگ میں جل کر ختم ہو جانے والی حرمل کو کیا خبر۔

--------

متعلقہ تحاریر : فارسی شاعری, نظیری نیشاپوری

2 comments:

  1. Dani keh hastam der jahan, man Khusrav e shirin zaban
    Ger naaie az behr e dilam, behr e zaban e man bia
    وارث صاحب ...کیا لطیف کلام سے روشناس کراتے ہیں دل و دماغ روشن ہو جاتے ہیں روح سے بوجھ اٹھ جاتا ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. نوازش آپ کی اور شکریہ یہاں تشریف لانے اور تبصرہ کرنے کیلیے۔

      Delete