ایک دوسری جگہ اس لغت کا تذکرہ آیا ہے تو میں نے یہی بہتر سمجھا کہ اپنے بلاگ پر بھی اس لغت کا تعارف لکھ دوں
کہ دیگر دوست بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔
نام ۔ معین الادب معروف بہ معین الشعراء
مصنف۔ منشی غلام حسین آفاق بنارسی
ناشر: سنگ میل، لاہور
سن اشاعت - 2003ء (طبعِ جدید)۔
قیمت - 600 روپے
الفاظ کی تذکیر و تانیث جاننا اردو زبان کا ایک اہم حصہ ہے اور متنازع فیہ بھی اور وہ اس لیے کہ اہلِ زبان یعنی دہلی اور لکھنو کے اساتذہ ایک ہی لفظ کو مذکر اور مونث دونوں طرح سے استعمال کرتے رہے ہیں اور شاعر حضرات کے لیے اس کو جاننا اور بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ شعر میں اگر کسی لفظ کی جنس غلط باندھ دی جائے تو اس پر اعتراض ضرور وارد ہوتا ہے۔
اردو قواعد میں تذکیر و تانیث پر باقاعدہ بحث کی جاتی ہے اور الفاظ کی جنس کے اصول بھی بتائے جاتے ہیں۔ لغات میں بھی عام طور پر کسی لفظ کی جنس واضح طور پر لکھی جاتی ہے لیکن جس لغت کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں ہر لفظ کی جنس کی سند میں اساتذہ کے اشعار بیان کیے گئے ہیں اور یہی اس لغت کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔
کتاب کے مصنف، منشی غلام حسین آفاق بنارسی مشہور شاعر جلیل مانک پوری کے شاگرد تھے۔ جلیل مانک پوری نے خود بھی الفاظ کی تذکر و تانیث پر ایک رسالہ لکھا تھا اور ممکن ہے کہ آفاق بنارسی کو اس لغت کا خیال وہیں سے ملا ہو۔
لغت کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے کہ پہلے لفظ ہے، اُس کے بعد ایک کالم میں اس کی زبان (یعنی کس زبان کا لفظ ہے)، اُس کے بعد اسی لفظ کے اعداد ملفوظی بیان کیے گئے ہیں۔ اور یہ بھی اس لغت کا ایک اہم پہلو ہے کیونکہ الفاظ کے اعداد بھی تاریخ گوئی میں استعمال ہوتے ہیں سو شعرا کے لیے یہ معلومات بھی ایک نعمت ہیں۔ اُس کے بعد اس لفظ کے عام استعمال ہونے والی معنی پھر یہ ذکر کہ یہ لفظ مذکر ہے یا مونث اور اس کے بعد مذکر یا مونث ہونے کی سند میں کسی استاد کا شعر۔ سند کے اشعار، دہلی اور لکھنو دونوں مکاتیب فکر کے شعرا کے ہیں سو اس بات سے اس لغت کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ کسی متنازعہ لفظ کی صورت میں اس کی وضاحت حواشی میں کی گئی ہے۔
دوسری طرف، اس لغت میں الفاظ کی تعداد، عام لغات کے مقابلے میں کم ہے۔ معنی انتہائی محدود اور جو عام استعال میں آتے ہیں بس وہی ہیں اور محاورات وغیرہ بھی نہیں ہیں، بہرحال اس کمی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ لغت بنیادی طور تذکیر و تانیث کا احاطہ کرتی ہے۔
بیسیویں صدی کے شروع میں یہ لغت مرتب ہوئی تھی اور سنگِ میل لاہور نے 2003ء میں طبع جدید کے ساتھ اسے شائع کیا تھا۔ کتاب کے کچھ عکس پیش خدمت ہیں۔
Feb 23, 2016
لغت "معین الادب معروف بہ معین الشعراء" از منشی غلام حسین آفاق بنارسی
متعلقہ تحاریر : کتابوں پر تبصرے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
شکریہ وارث بهائی.. براہ کرم بلاگ پر بهی نظر کرم :-)
ReplyDeleteجی کوشش تو ہوتی ہے بہرحال۔ شکریہ آپ کا۔
Deletevery nice bhai. bhot acha. great. :)
ReplyDeleteشکریہ جناب
DeleteSalam....!
ReplyDeleteWaris bhai...! Mujhe arooz ka ilm nahi hai bs ik sawal hai mera k
Kya "aazaad nazm" sirf aik behr mai kahi jaati hai...ya zaroorat ko dekhte howe do ya do se ziyaada bahoor bhi istimal kiye jaa sakhte hain??
Mujhe is mozuu par koi post na mila to majbooran yehaan comment kar parha...iske liye ma'Azrat chahungi.
Alia ahmed
شکریہ آپ کا بلاگ پر تشریف آوری کے لیے۔ عام طور پر آزاد نظم ایک ہی بحر میں کہی جاتی ہے۔ لیکن کچھ شعرا نے ایسا تجربہ بھی کیا ہے کہ ایک آزاد نظم میں ایک سے زاید بحور جمع کئی ہیں لیکن یہ صرف تجربات ہی ہیں جو کہ بڑے شعرا کرتے ہی رہتے ہیں۔
Deleteبہت شکریہ وارث بھائی۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔
ReplyDeleteآپ کا بھی شکریہ برادرم۔
Deleteبہت خوب!
ReplyDeleteکافی عرق ریزی کا کام کیا ہے فاضل مصنف نے۔
درست فرمایا احمد صاحب۔
Deleteکہاں سے خرید سکتے ہیں یہ لغت؟؟؟
ReplyDeleteسنگِ میل، لاہور ناشر ہیں یقینا ان سے مل جائے گی۔
Deleteنہایت اعلی ۔ ۔ ! جناب ہمارے بلاگ کی طرف بھی ایک نظر کرم
ReplyDelete