دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے
ناخدا سے گِلہ نہ موسم سے
میرے طوفاں تو بادبان میں تھے
سب شکاری بھی مل کے کیا کرتے
شیر بیٹھے ہوئے مچان میں تھے
یہ قصیدے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اس کی شان میں تھے
یہ جو تیری وفا کے گاہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکان میں تھے
تیشۂ وقت ہی بتائے گا
کتنے چہرے ابھی چٹان میں تھے
میں ہی اپنا رقیب تھا پرتو
میرے جذبے ہی درمیان میں تھے
(پرتو روہیلہ)
———
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مَفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع
دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے
دک تُ مضمر - فاعلاتن - 2212
ہِ میرِ جا - مفاعلن - 2121
ن م تھے - فَعِلن - 211
میرِ دشمن - فاعلاتن - 2212
مرے مکا - مفاعلن - 2121
ن م تھے - فَعِلن - 211
Oct 10, 2008
پرتو روہیلہ کی ایک غزل - دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر خفیف,
پرتو روہیلہ,
تقطیع
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment
اس بلاگ پر اردو میں لکھے گئے تبصروں کو دل و جان سے پسند کیا جاتا ہے، اگر آپ کے پاس اردو لکھنے کیلیے فونیٹک یا کوئی دیگر اردو 'کی بورڈ' نہیں ہے تو آپ اردو میں تبصرہ لکھنے کیلیے ذیل کے اردو ایڈیٹر (سبز رنگ کے خانے) میں تبصرہ لکھ کر اسے نیچے والے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں، اردو ایڈیٹر لوڈ ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے جس کیلیے آپ سے معذرت۔ اردو ایڈیٹر بشکریہ نبیل حسن نقوی۔