ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے
یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دُور کچھ اہلِ سفر گئے
ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ، خدا کو خبر ہے، کدھر گئے
رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قَدَر
میں ہوں زمیں، پہ داغ مرے تا قمر گئے
حکیم اجمل خان دہلوی Hakim Ajmal Khan |
بوسے کا نام میں نے لیا، وہ نکھر گئے
دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے
جانے لگا ہے دل کی طَرَف ان کا ہاتھ اب
نالے شبِ فراق کے کچھ کام کر گئے
حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ، کہ شب آئے سحر گئے
بس ایک ذات حضرتِ شیدا کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہلِ ہنر گئے
(مسیح الملک حکیم اجمل خاں شیدا)
ماخذ: نقوش غزل نمبر، لاہور، 1985ء
---------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے
کُچ بات - مفعول - 122
ہی تِ ایسِ - فاعلات - 1212
کِ تامے جِ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212
ہم اور - مفعول - 122
جاتِ بزمِ - فاعلات - 1212
عدو مے مَ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔