Feb 16, 2013

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا - فانی بدایونی

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصّہٴ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-urooz, behr, taqtee, Fani Badayuni, فانی بدایونی، اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحر، علم عروض
Fani Badayuni, فانی بدایونی
تصویر بشکریہ کرناٹک اردو اکاڈمی، بنگلور
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا

ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
کُن ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

فانی بدایونی

-----

قافیہ - آنے یعنی الف، نون  اور رے اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے دیوانے میں وانے، ویرانے میں رانے، پیمانے میں مانے، صنم خانے میں خانے، سمجھانے میں جھانے وغیرہ وغیرہ ۔

ردیف - کا

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ جیسے ساتویں شعر کے پہلے مصرعے کا آخری ٹکڑا "ہوئے رنگ" فَعِلان پر تقطیع ہوگا۔ اسی طرح دسویں شعر کے دوسرے مصرعے کا پہلا ٹکڑا "لیے جاتے" فَعِلاتن پر تقطیع ہوگا۔ بارہویں شعر کے پہلے مصرعے کا آخری ٹکڑا "گل رنگ" فعلان پر تقطیع ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

خلق کہتی - فاعلاتن - 2212
ہِ جسے دل - فعلاتن - 2211
ترِ دیوا - فعلاتن - 2211
نے کا - فعلن - 22

ایک گوشہ - فاعلاتن - 2212
ہِ یِ دنیا - فعلاتن - 2211
اسِ ویرا - فعلاتن - 2211
نے کا - فعلن - 22
---

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 14, 2013

متفرق فارسی اشعار - 9

حافظ شیرازی کی ایک غزل کے تین اشعار

نیکیِ پیرِ مُغاں بیں کہ چو ما بَدمستاں
ہر چہ کردیم، بچشمِ کَرَمش زیبا بُود

پیرِ مغاں کی نیکی تو دیکھ کہ ہم جیسے بد مستوں نے جو کچھ بھی کیا وہ اسکی نگاہِ کرم میں اچھا (مناسب) تھا۔

مُطرب از دردِ مَحبّت غزلے می پرداخت
کہ حکیمانِ جہاں را مژہ خوں پالا بود

مطرب محبت کے درد سے ایسی غزل گا رہا تھا کہ دنیا کے حکیموں (عقل مندوں) کی پلکیں خون سے آلودہ تھیں۔

قلبِ اندودۂ حافظ برِ او خرج نَشُد
کہ معامل بہمہ عیبِ نہاں بینا بود

حافظ کے دل کا کھوٹا سکہ اُسکے سامنے نہ چلا (چل سکا)، اس لئے کہ معاملہ کرنیوالا تمام پوشیدہ عیبوں کا دیکھنے والا تھا۔
----------

خمارِ ما و درِ توبہ و دلِ ساقی
بیک تبسّمِ مینا، شکست و بست و کُشاد

(مخلص خان عالمگیری)

ہمارا خمار، توبہ کا دروازہ اور ساقی کا دل، مینا کے ایک تبسم سے، ٹوٹ گیا (خمار) اور بند ہو گیا (توبہ کا دروازہ) اور کِھل اٹھا (دلِ ساقی)۔
----

تُو اے پیماں شکن امشب بما باش
کہ ما باشیم فردا یا نہ باشیم

(ابوالفیض فیضی)

اے پیماں شکن آج کی رات ہمارے ساتھ رہ، کہ کل ہم ہوں یا نہ ہوں۔
-----

ما ز آغاز و ز انجامِ جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است

ابو طالب کلیم کاشانی (ملک الشعرائے شاہجہانی)۔

ہم اس جہان کے آغاز اور انجام سے بے خبر ہیں کہ یہ ایک ایسی پرانی (بوسیدہ) کتاب ہے کہ جس کے شروع اور آخر کے ورق گر گئے ہیں۔
-----

اگرچہ وعدۂ خوباں وفا نمی دانَد
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرَد

(صائب تبریزی)

اگرچہ خوباں کا وعدہ، وفا ہونا نہیں جانتا (وفا نہیں ہوتا، لیکن) وہ زندگی بہت خوب ہے جو انتظار میں گزرتی ہے۔
-----

اہلِ ہمّت را نباشد تکیہ بر بازوئے کس
خیمۂ افلاک بے چوب و طناب استادہ است

(ناصر علی سرہندی)

ہمت والے لوگ کسی دوسرے کے زورِ بازو پر تکیہ نہیں کرتے، (دیکھو تو) آسمانوں کا خیمہ چوب اور طنابوں کے بغیر ہی کھڑا ہے۔
----
Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ

دل خاکِ سرِ کوئے وفا شُد، چہ بجا شُد
سر در رہِ تیغِ تو فدا شُد، چہ بجا شُد

(عبدالقادر بیدل)

ہمارا دل، کوئے وفا کی خاک ہوگیا، کیا ہی خوب ہوا، اور سر تیری تلوار کی راہ میں فدا ہوگیا، کیا ہی اچھا ہوا۔
---

ما و خاکِ رہگذر بر فرقِ عریاں ریختن
گُل کسے جوید کہ او را گوشۂ دستار ہست

(غالب )

ہم ہیں اور اپنے ننگے سر (فرقِ عریاں) پر رہگزر کی خاک ڈالنا، پُھول تو وہ تلاش کرے کہ جس کے پاس دستار ہو۔
----

حق اگر سوزی ندَارَد حکمت است
شعر میگردَد چو سوز از دل گرفت

(اقبال)

سچائی میں اگر سوز نہیں ہے تو وہ (فقط عقل و) حکمت ہے، لیکن وہی سچائی جب دل سے سوز حاصل کر لیتی ہے تو شعر بن جاتی ہے۔
----

گماں مبر کہ ستم کردی و وفا نہ کُنَم
بیا بیا کہ ہماں شوق و آرزو باقی است

یہ گمان نہ کر کہ تُو نے مجھ پر ستم کیئے ہیں تو میں وفا نہیں کرونگا، آجا، آجا کہ (اب بھی میرا) وہی شوق اور وہی آرزو باقی ہیں۔

فدائے صُورَتِ زیبا رُخے کہ فانی نیست
نثارِ حُسنِ حسینے کہ حُسنِ اُو باقی است

میں اس خوبصورت چہرے والی صورت پر فدا ہوں کہ (جسکی خوبصورتی) فانی نہیں ہے، میں اس حسین کے حسن پر قربان ہوں کہ جسکا حسن باقی (رہنے والا) ہے۔

(اکبر الٰہ آبادی - دیوان)
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 12, 2013

قطعہ شیخ سعدی شیرازی مع ترجمہ

شیخ سعدی شیرازی  کا ایک خوبصورت قطعہ

گِلے خوش بوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ مخدومے بہ دستم

ایک دن حمام میں، ایک مہربان کے ہاتھ سے مجھ تک ایک خوشبودار مٹی پہنچی۔

بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم

میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری (دونوں اعلیٰ خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مَیں مست ہوا جاتا ہوں۔

بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم

اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے۔
Saadi Shirazi, Mazar Saadi Shirazi, Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ، مزار شیخ سعدی شیرازی
Mazar Saadi Shirazi, مزار شیخ سعدی شیرازی
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم

اور ہمنشیں کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا ہے وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔

شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 6, 2013

شیخ غلام قادر گرامی کی نعتیہ رباعیات مع اردو ترجمہ

پچھلی صدی کے مشہور فارسی شاعری شیخ غلام قادر گرامی کی کچھ نعتیہ رباعیات

آں ختمِ رُسل شاہِ عرب ماہِ عجم
آں موجِ نخست است ز دریائے قِدم
در تابشِ آفتابِ محشر چہ غم است
دستِ من و دامنِ رسولِ اکرم

وہ ختمِ رُسل کے جو شاہِ عرب اور ماہِ عجم ہیں۔ وہ جو قدامت کے دریا کی پہلی موج ہیں۔ ہمیں محشر کے آفتاب کی گرمی کا کیا غم کہ محشر میں ہم نے اپنے ہاتھ سے دامنِ رسولِ اکرم ص تھاما ہوگا۔
---

گویم ز مسیحا و محمد سخنے
ثانی دگرست نقسِ اوّل دگرست
نسبت در ماہ و مہر من میدانم
کامل دگرست فردِ کامل دگرست

میں مسیح ع اور محمد ص سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دوسرا یعنی مسیح ع کچھ اور ہیں اور اس کائنات کے پہلے نقش یعنی حضورِ اکرم ص کچھ اور ہیں۔ میں چاند، جو محدود روشنی کا حامل ہوتا ہے، اور سورج کہ جسکی ضیا پاشیوں سے سارا جہاں چمکتا ہے، کی نسبت اور فرق کو بخوبی جانتا ہوں کہ کامل ہونا یعنی بتدریج مکمل ہونا کچھ اور چیز ہے اور سراسر اور مکمل ترین اور ہر طرح سے اکمل ہونا کچھ اور ہے۔
----

خاور چکد از شبم بایں تیرہ شبی
کوثر چکد از لبم بایں تشنہ لبی
اے دوست ادب کہ در حریمِ دلِ ماست
شاہنشہِ انبیا رسولِ عربی

میری راتوں میں اس تمام تیرگی کے باوجود سورج چمکتے ہیں۔ میری اس تشنہ لبی کے باوجود میرے ہونٹوں سے کوثر کے قطرے ٹپکتے ہیں۔ اے دوست ادب کہ ہمارے دل کے حریم میں شاہنشاہِ انبیا رسولِ عربی ص بستے ہیں۔
----

پیغمبرِ ما کہ انبیا راست امام
جبریل آوردش از خداوند پیام
بودش برحِکمِ فطرت انجام آغاز
در دائرہِ نبوّت آغاز انجام

ہمارے پیغمر ص کہ جو تمام انبیا کے امام ہیں اور جبریلِ امین انکے پاس خدا کا پیغام لائے۔ آپ ص کا انجام اور آغاز دونوں فطرت کی حکمتوں پر مبنی تھے، گویا آپ دائرہ نبوت کا ایک ایسا مقام ہیں کہ جہاں سے آغاز بھی ہوتا ہے اور اختتام بھی۔
----
Rubaiyat, Rubai, persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, Sheikh Ghulam Qadir Grami, ،رباعیات شیخ غلام قادر گرامی  مع اردو ترجمہ،  فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی، نعت
شیخ غلام قادر گرامی, Sheikh Ghulam Qadir Grami

فاراں دگرست کوہِ سینا دگرست
موسیٰ دگر و مثیلِ موسیٰ دگرست
در موسیٰ و مصطفیٰ چہ رمزیست غریب
ساحل دگرست، عینِ دریا دگرست

کوہِ فاران کچھ اور چیز ہے اور کوہِ سینا کچھ اور، مُوسیٰ ع کچھ اور ہیں اور مثیلِ مُوسیٰ ص کچھ اور۔ مُوسیٰ ع اور مصطفیٰ ص کے درمیان کیا ہی منفرد رمز ہے کہ ساحل کچھ اور چیز ہے یعنی مُوسیٰ اور عین دریا کچھ اور یعنی حضورِ اکرم ص۔
----

اے ختمِ رُسل جانِ جہاں فارقلیط
خوانند ترا بر آسماں فارقلیط
می گفت مسیح در بشاراتِ جلیل
من میروم آید بجہاں فارقلیط

اے آخری رسول ص، زمانے کی جان فارقلیط۔ آپ ص کو آسمانوں پر فارقلیط کہا جاتا ہے۔ مسیح ع نے اپنی عظیم و جلیل بشارات میں کہا کہ میں جا رہا ہوں اور اب دنیا میں فارقلیط ص آتے ہیں۔
----

ما را در سینہ داغِ ماہِ عرب ست
بر ما نظرش بے سببی ہا سبب ست
رمزیست نگفتنی بگویم اے دوست
میم است کہ پردہ دارِ عینِ عرب ست

ہمارے سینے میں ماہِ عرب یعنی رسولِ اکرم ص کا ہی عشق اور سوز ہے۔ ہمارے حال پر انکی نظر ہے سو تمام بے سر و سامانی کے باوجود یہی انکی نظرِ کرم ہی سارے سبب ہیں۔ اے دوست میں تجھ سے ایک ناگفتنی رمز کہتا ہوں کہ میم عرب کے عین کی پردہ دار ہے۔ آخری مصرعے میں وحدت الوجودی صوفیا کا عقیدہ بیان ہوا ہے۔
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔