علامہ اقبال کی پیامِ مشرق سے ایک خوبصورت نظم پیشِ خدمت ہے جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔ اقبال کی فکر اس میں عروج پر ہے اور جہاں خدا کی زبانی انسان کی ‘ہوس’ کو ظاہر کیا ہے وہیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا ہے اور انسان کی محنت اور عظمت بھی بیان کی ہے۔ اقبال کا ‘انسان’ اور ‘انسانیت’ پر ایمان اور اور انسان کا کائنات سے رشتہ بھی اس نظم سے واضح ہوتا ہے۔
محاورہ مابین خدا و انسان
(خدا اور انسان کے درمیان مکالمہ)
خدا
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
(میں نے یہ جہان ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا، تو نے اس میں ایران و توران و حبش بنا لیے۔)
من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
(میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ بنا لیے۔)
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
(تو نے اس سے چمن کے درخت کاٹنے کیلیے کلہاڑا بنا لیا، نغمہ گاتے ہوئے پرندوں کیلیے قفس بنا لیا۔)
علامہ محمد اقبال, Allama Iqbal |
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
(تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔)
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
(تو نے بیابان، پہاڑ اور میدان بنائے۔ میں نے اس میں خیابان، گلزار اور باغ بنا لیے۔)
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
(میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ/شیشہ بناتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے شربت/تریاق بناتا ہوں۔)
——–
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
جہا را - فعولن - 221
ز یک آ - فعولن - 221
ب گل آ - فعولن - 221
ف ریدم - فعولن - 221
تُ ایرا - فعولن - 221
ن تاتا - فعولن - 221
ر زنگا - فعولن - 221 (الف وصل کا استعمال ہوا ہے)
فریدی - فعولن - 221
بہت ہی خوب انتخاب ہے وارث بھائی ۔۔۔۔۔۔!
ReplyDeleteآپ کے بلاگ پر ہر پوسٹ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔
شکریہ احمد صاحب
Deleteبہت اعلی سر
ReplyDeleteشکریہ جناب
Delete