گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می ریزیم ما
ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں
قطره، گوهر می شود در دامنِ بحرِ کرم
آبروئے خویش در میخانہ می ریزیم ما
قطرہ، بحرِ کرم کے دامن میں گوھر بن جاتا ہے (اسی لیئے) ہم اپنی آبرو مے خانے میں نثار کر رہے ہیں۔
در خطرگاهِ جہاں فکرِ اقامت می کنیم
در گذارِ سیل، رنگِ خانہ می ریزیم ما
اس خطروں والے جہان میں ہم رہنے کی فکر کرتے ہیں، سیلاب کے راستے میں رنگِ خانہ ڈالتے ہیں (گھر بناتے ہیں)
در دلِ ما شکوهٔ خونیں نمی گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می ریزیم ما
ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
![]() |
صائب تبریزی - ایک خاکہ، saib tabrizi |
خونِ خود چوں کوهکن مردانہ می ریزیم ما
عشق کے آئین میں قتل ہونے (موت) کا انتظار نامردی ہے، ہم اپنا خون فرہاد کی طرح خود ہی مردانہ وار بہا رہے ہیں۔
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
خار در پیراهنِ فرزانہ می ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می ریزیم ما
خار در پے - فاعلاتن - 2212
را ہَ نے فر - فاعلاتن - 2212
زانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
گل بَ دامن - فاعلاتن - 2212
بر سَرے دی - فاعلاتن - 2212
وانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔