'زبورِ عجم' علامہ اقبال کا وہ شاہکار ہے جسکی 'انقلابی' نظمیں علامہ کی شدید ترین خواہش کا اظہار واشگاف الفاظ میں کرتی ہیں، 'زبورِ عجم' سے انقلاب کے موضوع پر دو نظمیں پہلے اس بلاگ پر لکھ چکا ہوں، ایک 'از خوابِ گراں خیز' اور دوسری وہ جس کا ٹیپ کا مصرع ہی 'انقلاب، اے انقلاب' ہے۔ اسی کتاب میں سے ایک اور نظم لکھ رہا ہوں، دیکھیئے علامہ کیا 'خواہش' کر رہے ہیں۔
یا مُسلماں را مَدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانے آفریں
یا چُناں کُن یا چُنیں
(اے خدا) یا تو مسلمانوں کو یہ فرمان مت دے کہ وہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ لیں یا پھر ان کے کمزور اور فرسودہ جسموں میں نئی جان ڈال دلے (کہ موجودہ حالت میں تو وہ تیرا فرمان بجا لانے سے رہے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا بَرَہمن را بَفَرما، نو خداوندے تراش
یا خود اندر سینۂ زنّاریاں خَلوت گزیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا برہمن کو یہ حکم دے کہ وہ اپنے لیے نئے خدا تراش لیں (کہ پرانے خداؤں کی محبت انکے دل سے بھی اٹھ چکی اور خلوص باقی نہیں ہے) یا خود ان زنار باندھنے والوں برہمنوں کے سینوں میں خلوت اختیار کر (کہ یا ان کو بت پرستی میں راسخ کر یا مسلماں کر دے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا، دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمتَرک
یا، دگر ابلیس بہرِ امتحانِ عقل و دیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی اور آدم بنا جو ابلیس سے کم ہو (کہ موجودہ آدم ابلیس سے بھی بڑھ چکا ہے) یا عقل اور دین کے امتحان کے لیے کوئی اور ابلیس بنا (کہ تیرا یہ ابلیس تو انسان کی شیطنت کے آگے ہیچ ہو گیا) ۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
می کنی تا چند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی نیا جہان بنا یا کوئی نیا امتحان بنا، تو ہمارے ساتھ کب تک وہی کچھ کرے گا جو اس سے پہلے بھی کر چکا ہے یعنی ازلوں سے ایک ہی کشمکش ہے، لہذا یا کوئی نیا جہان بنا یا اس آزمائش اور کشمکش کو ہی بدل دے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
فقر بخشی؟ با شَکوہِ خسروِ پرویز بخش
یا عطا فرما خرَد با فطرتِ روح الامیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
تُو نے (مسلمانوں کو) فقر بخشا ہے، لیکن انہیں خسرو پرویز جیسی شان و شوکت بھی بخش یعنی طاقت بھی دے، یا انہیں ایسی عقل فرما جسکی فطرت روح الامین (جبریل) جیسی ہو یعنی وہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا بکُش در سینۂ ما آرزوئے انقلاب
یا دگرگوں کُن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا تو میرے سینے میں انقلاب کی آرزو ہی (ہمیشہ کیلیے) ختم کر دے یا اس زمان و مکان (زمانے) کی بنیاد ہی دگرگوں کر دے، الٹ پلٹ دے، تہ و بالا کر دے، یعنی اس میں انقلاب برپا کر دے۔ ویسا کر یا ایسا کر۔
-----
آہ۔۔۔ میرے خیال میں تو ہمیں دانستہ فارسی سے نابلد رکھا گیا ہے
ReplyDeleteتاکہ اس عظیم شاعر کے پیغام کا گلا گھونٹ دیا جائے
بہت عمدہ نظم اور ترجمے کے لئے آپ کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے
کم ہے ۔۔۔۔
جناب ... آپ سے ایک کام پڑگیا ہے...
ReplyDeleteبلاگ سپاٹ پر اپنا بلاگ منتقل کرنا چاہتاہوں...
بلاگ بنا لیا ہے...آگے کیا کرنا ہے؟؟؟؟
اردو سپورٹ کیسے ملے گی...
یا اگر کوئی اردو تھیم ہے تو اس کا لنک دے دیجئے ...
تکلیف کے لئے معذرت ...
شکریہ جعفر، نوازش۔
ReplyDeleteبلاگ سپاٹ کے اردو سانچوں کیلیے اردو مھفل کا یہ ربط دیکھیں کہ میرے سمیت تقریباً سبھی نئے لکھنے والوں نے یہی سانچے لیئے ہیں، فائل بھی یہیں سے ملے گی۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=17625
اسکے علاوہ اردو بلاگنگ کے متعلق عمومی اور خصوصی سوالات اور مدد کیلیے یہ محفل کا یہ ذیلی ذمرہ
http://www.urduweb.org/mehfil/forumdisplay.php?f=219
اور کسی بھی قسم کی وضاحت کیلیے آپ مجھے سے ای میل کے ذریعے بھی رابطہ کر سکتے ہیں
waris9[at]yahoo[dot]com
والسلام
ماشا اللہ بہت خوب وارث صاحب۔، پہلے پہل تومیں ڈررہا تھا کہ پڑھوں یا نہ پڑھوں مگر آپ کی تشریح نے حوصلہ بڑھا دیا۔ جواب نہیں ، بہت شکریہ پیش کرنے کو
ReplyDeleteبہت شکریہ مغل صاحب، ذرّہ نوازی ہے آپ کی۔
ReplyDeleteبہت نوازش قبلہ۔۔۔
ReplyDeleteذبردست ۔ ۔تشریح کا شکریہ
ReplyDeleteامید
شکریہ آپ کا۔
ReplyDeleteبہت شکریہ وارث صاحب ہمیشہ کی طرح اس قیمتی تحریر کیلئے۔ ۔
ReplyDeleteنوازش عمیر، شکریہ۔
ReplyDeleteبہت شکریہ وارث بھائی!
ReplyDeleteعلامہ اقبال کی کس قدر عمدہ نظم سے روشناس کروایا ہے آپ نے.
اس پیشکش اور تشریح کے لئے بے حد ممنون ہوں کہ بہت سی نادر و نایاب تحریروں کے درمیان فارسی کی دیوار کھڑی ہے جس سے ہم تقریباً نابلد ہی ہیں.
ایک بار پھر شکریہ!
نوازش آپ کی احمد صاحب۔
ReplyDeleteاللہ کریم آپ کو نیکی دے، محمد وارث صاحب!۔
ReplyDeleteعلامہ اقبال کا تو سارا کلام ہی پیغام ابدی کی تشریح و تفسیر ہے۔ اللہ کرے یہ امت علامہ صاحب کے طرزِ فکر اور طرزِ احساس کو پا لے۔ آمین۔
جناب محمد جعفر صاحب کے خدشات بجا ہیں۔
ReplyDeleteہمیں ہر اس ورثے سے محروم کیا جا رہا ہے جو ہماری اصل شناخت کا کام کر سکے۔ پہلے فارسی پر حملے ہوئے، اور پھر عربی پر اور اب اردو کو ”مغربایا“ جا رہا ہے۔ ادھر سکولوں کے نصاب میں جو تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں، وہ مکمل غلامانہ فکر کی آئینہ دار ہیں۔ ایسے میں آپ جیسے حساس اور صاحبِ قلم طبقے کا کام مشکل تر بھی ہوتا جاتا ہے اور لازم تر بھی۔
فارسی اور عربی اردو کے خمیر میں شامل ہیں۔ ان سے بھاگ کے کوئی کہاں جائے گا۔ ہمارا سارا دینی اور ثقافتی ورثہ ان زبانوں میں محفوظ ہے، اللہ ہمیں ان سے جوڑے رکھے۔ کوشش تو ہمہی کو کرنی ہو گی نا!۔
بجا فرمایا آپ نے جناب یعقوب آسی صاحب۔
ReplyDelete