فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک خوبصورت غزل۔
مانندِ گل ہیں میرے جگر میں چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ
مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چُھپا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ
داغ دہلوی، Dagh Dehlvi |
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ
تاریکیٔ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ
مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا
رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ
داغ دہلوی
——–
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
مانندِ گل ہیں میرے جگر میں چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ
ما نندِ - مفعول - 122
گل ہِ میرِ - فاعلات - 1212
جگر مے چَ - مفاعیل - 1221
راغِ داغ - فاعلان - 1212
پروانِ - مفعول - 122
دے ک تے ہِ - فاعلات - 1212
تماشاء - مفاعیل - 1221
باغِ داغ - فاعلان - 1212
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر مضارع,
تقطیع,
داغ دہلوی,
کلاسیکی اردو شاعری
0 تبصرے:
Post a Comment
اس بلاگ پر اردو میں لکھے گئے تبصروں کو دل و جان سے پسند کیا جاتا ہے، اگر آپ کے پاس اردو لکھنے کیلیے فونیٹک یا کوئی دیگر اردو 'کی بورڈ' نہیں ہے تو آپ اردو میں تبصرہ لکھنے کیلیے ذیل کے اردو ایڈیٹر (سبز رنگ کے خانے) میں تبصرہ لکھ کر اسے نیچے والے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں، اردو ایڈیٹر لوڈ ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے جس کیلیے آپ سے معذرت۔ اردو ایڈیٹر بشکریہ نبیل حسن نقوی۔