بخوانندۂ کتابِ زبور
(کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے)
اسے آپ علامہ اقبال کی شہرہ آفاق کتاب 'زبورِ عجم' کا دیباچہ سمجھ لیں کہ اقبال نے زبورِ عجم کے قارئین سے خطاب کیا ہے، کُل تین شعر ہیں اور کیا لاجواب شعر ہیں۔ ایک ایک شعر اپنے اندر ایک جہان لیے ہوئے ہے۔
می شَوَد پردۂ چشمِ پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے
کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے اور کبھی میں ہر دو جہاں کو ایک نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔
علامہ محمد اقبال Allama Iqbal |
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے
عشق کی وادی یا منزل بہت دور ہے لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک آہ میں طے ہو جاتا ہے۔
در طلب کوش و مدہ دامنِ امید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے
طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔
متعلقہ تحاریر : اقبالیات,
زبور عجم,
علامہ اقبال,
فارسی شاعری
واقعی تینوں اشعار لاجواب ہیں۔
ReplyDeleteبہت شکریہ وارث بھائی!
۔
salam
ReplyDeletebohat khoob ...
har sheer lajwab hai
جناب وارث صاحب جیسا کہ اب جانتے ہین خاکسار فارسی سے نا بلد ہے--- لیکن بھائی فارسی ضرور ٹیاگ کرین-- رہی یہ تین اسعار کی بات وہ تو علامہ کے ہین-- لکین ترجمہ کہتا ہے کہ ضرور کسی الہامی کتاب کا ہے-- اگر کوی صرف اردو کا متن پڑ ھلے یقینا وہ یہ کہےگا کہ یہ کسی لہامیہ کیات کا ہئے-- واقعی ترجمہ بھی عمدہ ہے--
ReplyDelete