Jan 11, 2010

بخوانندۂ کتابِ زبور - اقبال

بخوانندۂ کتابِ زبور
(کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے)

اسے آپ علامہ اقبال کی شہرہ آفاق کتاب 'زبورِ عجم' کا دیباچہ سمجھ لیں کہ اقبال نے زبورِ عجم کے قارئین سے خطاب کیا ہے، کُل تین شعر ہیں اور کیا لاجواب شعر ہیں۔ ایک ایک شعر اپنے اندر ایک جہان لیے ہوئے ہے۔

می شَوَد پردۂ چشمِ پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے

کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے اور کبھی میں ہر دو جہاں کو ایک نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے

عشق کی وادی یا منزل بہت دور ہے لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک آہ میں طے ہو جاتا ہے۔

در طلب کوش و مدہ دامنِ امید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے

طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔

متعلقہ تحاریر : اقبالیات, زبور عجم, علامہ اقبال, فارسی شاعری

3 comments:

  1. واقعی تینوں اشعار لاجواب ہیں۔

    بہت شکریہ وارث بھائی!

    ۔

    ReplyDelete
  2. salam

    bohat khoob ...
    har sheer lajwab hai

    ReplyDelete
  3. جناب وارث صاحب جیسا کہ اب جانتے ہین خاکسار فارسی سے نا بلد ہے--- لیکن بھائی فارسی ضرور ٹیاگ کرین-- رہی یہ تین اسعار کی بات وہ تو علامہ کے ہین-- لکین ترجمہ کہتا ہے کہ ضرور کسی الہامی کتاب کا ہے-- اگر کوی صرف اردو کا متن پڑ ھلے یقینا وہ یہ کہےگا کہ یہ کسی لہامیہ کیات کا ہئے-- واقعی ترجمہ بھی عمدہ ہے--

    ReplyDelete