رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔
رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب
رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔
رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔
1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع
اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔
کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی
صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)
اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے
- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔
- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔
- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔
- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔
- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔
اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔
سبب پئے سبب و وتد پئے وتد
یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔
فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں
مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن
اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں
مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی
مفعول مفاعیل
اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے
مفعول مفاعیل مفاعیلن
اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا
مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا
مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع
اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔
اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔
شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان
ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔
اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو
مفعول مفاعیلن
یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے
مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول
اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا
مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)
فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا
مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)
اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو
مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)
فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا
مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)
اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی
مفعول مفاعیل
مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی
مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل
مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی
مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)
مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)
تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا
مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)
مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)
آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی
مفعول مفاعلن
یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا
مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل
مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو
مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)
مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)
مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو
مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)
مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)
گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔
شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان
پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔
جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں
مفعولن مفعولن
یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو
مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول
مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو
مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)
اور فع کو فاع سے بدلیں تو
مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)
تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو
مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)
اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو
مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)
اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی
مفعولن مفعول
اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی
مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل
مفاعیلن کے بعد فع آیا تو
مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)
اور
مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)
اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی
مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)
اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)
اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔
مفعولن فاعلن
فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے
مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل
مفاعیلن کے بعد فع آیا تو
مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)
اور
مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)
تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو
مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)
اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)
اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔
یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔
ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔
رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب
رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔
رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔
1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع
اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔
کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی
صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)
اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے
- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔
- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔
- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔
- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔
- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔
اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔
سبب پئے سبب و وتد پئے وتد
یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔
فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں
مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن
اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں
مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی
مفعول مفاعیل
اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے
مفعول مفاعیل مفاعیلن
اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا
مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا
مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع
اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔
اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔
شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان
ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔
اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو
مفعول مفاعیلن
یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے
مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول
اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا
مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)
فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا
مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)
اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو
مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)
فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا
مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)
اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی
مفعول مفاعیل
مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی
مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل
مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی
مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)
مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)
تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا
مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)
مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)
آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی
مفعول مفاعلن
یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا
مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل
مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو
مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)
مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)
مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو
مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)
مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)
گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔
شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان
پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔
جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں
مفعولن مفعولن
یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو
مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول
مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو
مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)
اور فع کو فاع سے بدلیں تو
مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)
تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو
مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)
اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو
مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)
اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی
مفعولن مفعول
اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی
مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل
مفاعیلن کے بعد فع آیا تو
مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)
اور
مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)
اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی
مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)
اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)
اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔
مفعولن فاعلن
فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے
مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل
مفاعیلن کے بعد فع آیا تو
مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)
اور
مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)
تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو
مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)
اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)
اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔
یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔
متعلقہ تحاریر : بحر ہزج,
رباعی,
علم عروض,
محمد وارث,
مضامین,
میری تحریریں,
میرے مضامین
بہت شکریہ وارث صاحب ایک بہت ہی عمدہ تحریر کے لیے۔۔ بہت ہی پیچ و خم ہیں اور ابھی سمجھنے کی کوشش جاری ہے۔۔ وہ کیا کہا تھا کسی سیانے نے کہ شاعری وہ کھیل نہیں جسے بچے کھیلیں تو اس کا مطلب اب سمجھ آیا ہے۔۔
ReplyDeleteواہ حضور کیا ہی خوبصورت اور سیر حاصل بحث کی ہے۔ آغاز سے انجام تک بیک وقت مرتب اور سلیس انداز میں لکھا ہے کہ سمجھ آئے بنا چارہ نہیں۔
ReplyDeleteبہت شکریہ راشد صاحب اور فاتح صاحب، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteاستاذ محترم آپ نے ہمیں 12 کا عادی بنایا ہے اب یہ فاعلاتن سمجھنا ذرا مشکل لگتا ہے عددبھی بھی ساتھ ہوجائیں تو بہت بہتر ہوگا اور مثالیں بھی
ReplyDeleteباسم صاحب، یہ مضمون ایک خاص مقصد کیلیے تھا، لیکن بہرحال اسی مضمون کا ایک دوسرا حصہ جلد ہی لکھوں گا، انشاءاللہ، جس میں اشاری نظام کے ساتھ ساتھ مثالیں بھی آ جائیں گی۔
ReplyDeleteوالسلام
السلام علیکم
ReplyDeleteمحترم میں آپ کے بلاگ کے خاموش قاریوں میں سے ہوں۔ پہلی بار تبصرہ کرنے کی ہمت جٹا پا رہا ہوں۔
یہ مضمون پبلش ہونے کے بعد سے کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔ چونکہ عام آدمی ہوں اسلئے آہستہ آہستہ سمجھ میں آرہا ہے۔ آپ سے یہ پوچھنے کیلئے آیا ہوں:
"ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا"
ایک عام آدمی کیلئے اس وضاحت فرمادیں کی سبب اور وتد کو ہم کیسے پہنچانیں گے کہ فلاں سبب پر ختم ہوا اور فلاں سبب سے شروع ہو رہا ہے اور فلاں وتد پہ ختم ہوا اور فلاں وتد سے شروع ہو رہا ہے۔
آداب شعراء و ادباء سے چونکہ واقف نہیں ہوں اس لئے کہیں کوئی بے ادبی ہوگئی ہو تو معاف فرمائیں
سعید
شکریہ سعید صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید۔
ReplyDeleteسبب اور وتد کے سلسلے میں یہ کہ اگر آپ اس بلاگ کی دیگر تحاریر اس موضوع پر دیکھ چکے ہیں تو پھر مشکل نہیں ہونی چاہیئے، دو ہجائی لفظ جیسے دل، گل، ہم، تم وغیرہ وتد ہیں۔ اور سہ ہجائی لفظ یعنی جس میں ایک ہجائے بلند اور ایک ہجائے کوتاہ ہوں وہ وتد ہیں جیسے آب، آپ، چمن، نظر وغیرہ۔
اللہ کے فضل سے اور آپ کی راہنمائی سے بالآخر میں اس بحث کو سمجھنے میں کامیاب ہو گیا۔ خود سے کئی بار مشق بھی کی شروع کی دو دفعہ میں غلطیاں ہوئیں پھر نہیں ہوئیں۔ آپ کا بہت بہت شکرئیہ
ReplyDeleteسعید
بہت خوشی ہوئی یہ جان کر سعید صاحب، ماشاءاللہ۔
ReplyDeleteوارث بھائی
Deleteماشااللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی آسان اور عام فہم طریقے سے رباعی کے دریا کو اس ٹیگ کے کوزے میں بند کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جزاک اللہ بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سلامت رہیں ۔۔۔۔۔۔ برقی لہروں کے ذریعے علم و ادب کے میدان آپ کی یہ خدمات ناقابل فرموش ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کی گہرائیوں سے آپ کے لیے دعائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوازش آپ کی ناصر صاحب
ReplyDeleteمحترم جناب وارث صاحب
Deleteارمغان حجاز میں رباعیات کے نام سے اقبال کی کچھ رباعیات دی گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے دو رباعیاں درج کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
یہ دو رباعیاعیاں نمونے کے طور پر دی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ’’مفعولن‘‘ یا ’’مفعول‘‘ سے تو شروع نہین ہو رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ازراہ کرم اس کی وضاحت فرما دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
جی آپ نے درست نشاندہی فرمائی ہے ناصر صاحب اور اس بات کا جواب پہلے ہی آ چکا ہے، اپ یہ ربط دیکھیے
Deletehttp://muhammad-waris.blogspot.com/2011/02/blog-post_21.html
اس پوسٹ میں استفسار نمبر 3 دیکھیے، اسی کے متعلق ہے۔
والسلام
جواد و غنی برتر و بالا وہ ہے
ReplyDeleteرزاقِ جہاں رب ِتعالیٰ وہ ہے
کیوں مانگ رہا ہے مانگنے والوں سے
اللہ سے مانگ دینے والا وہ ہے
رباعی ازحضرت علامہ سید نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑہ شریف
جواد و غنی برتر و بالا وہ ہے
ReplyDeleteرزاقِ جہاں رب ِتعالیٰ وہ ہے
کیوں مانگ رہا ہے مانگنے والوں سے
اللہ سے مانگ دینے والا وہ ہے
رباعی ازحضرت علامہ سید نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑہ شریف
لاجواب
Deleteماضی کی نوائے نکتہ دانی ھم ھیں
ReplyDeleteبیتی ھوئی صدیوں کی کہانی ھم ھیں
اے وقت گراں!گرا نہ نظروں سے
گزرے ھوئے دور کی نشانی ھم ھیں
وارث صاحب!
ReplyDeleteکیا آپ کے اس مضمون کو اردو محفل کے جریدے کے اپریلأ جون ۲۰۲۰ میں شائع کرنے کی اجازت مل جائے گی؟
جی خلیل صاحب، اس کے لیے بالکل بھی اجازت کی ضرورت نہیں، جیسے چاہیں استعمال کریں محترم۔ :)
Deleteجزاک اللہ
Delete