ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں
یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
خواجہ الطاف حسین حالی Altaf Hussain Hali |
رکھّی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں
بس ہو چکا بیاں کَسَل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
(خواجہ الطاف حسین حالی)
------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع--
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
ہے جُستَ - مفعول - 122
جُو کِ خوب - فاعلات - 1212
سِ ہے خوب - مفاعیل - 1221
تر کہا - فاعلن - 212
اب ٹھیر - مفعول - 122
تی ہِ دے کِ - فاعلات - 1212
یِ جا کر نَ - مفاعیل - 1221
ظر کہا - فاعلن - 212
----
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
الطاف حسین حالی,
بحر مضارع,
تقطیع,
کلاسیکی اردو شاعری
یہ غزل پہلے بھی پڑھی تھی لیکن مکمل پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔ کیا بات ہے لاجواب
ReplyDeleteشکریہ علی صاحب۔
ReplyDeleteہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
ReplyDeleteاب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
زبردست وااااااااااااااہ
شکریہ جناب
Deleteہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
ReplyDeleteاب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
اس شعر کی تشریح مطلوب ہے
انسانی فطرت کی عکاسی اس غزل میں کیا خوب ہے
ReplyDeleteبجا فرمایا آپ نے۔
Delete