گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو یک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اس مونہہ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراشِ جبیں جراحت ہے
ناخنِ شوق کا ہنر دیکھو
تھی ہمیں آرزو لبِ خنداں
سو عوض اس کے چشمِ تر دیکھو
میر تقی میر Mir Taqi Mir |
ایک دن آؤ یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دُور گر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
----
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
گر چ کب دے - فاعلاتن - 2212
ک تے ہُ پر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22
آرزو ہے - فاعلاتن - 2212
کِ تم ادر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22
-----
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر خفیف,
تقطیع,
کلاسیکی اردو شاعری,
میر تقی میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
ReplyDelete...
بہت عمدہ انتخاب ہے جناب، کیا کہنے
بہت شکریہ عدنان صاحب
ReplyDelete