لازوال نعرۂ پاکستان، “پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” کے خالق پروفیسر اصغر سودائی، 17 مئی کو سیالکوٹ میں چل بسے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔
پروفیسر سودائی نے 1944 میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی، ”ترانۂ پاکستان” اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ آپ سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ پوچھتے تھے کہ، مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ اور یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ “تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔”
اصغر سودائی 1926 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا اور علامہ اقبال کالج، سیالکوٹ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی تعلیم و ادب کی آبیاری میں گزاری، ایک شعری مجموعہ “چلن صبا کی طرح” یادگار چھوڑا ہے۔
سیالکوٹ، علامہ اقبال چوک میں ایک ریسٹورنٹ ہے، ایمیلیا ہوٹل، یہ یوں سمجھیں کہ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے کہ جہاں عمعوماً شعرا، صحافی اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے ہیں، مرحوم بھی اکثر وہاں آتے تھے اور اپنے ملنے والوں کو تحریک پاکستان، قائد اعظم کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے لوگ ان کو “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا” بھی کہتے تھے۔
میں یہ لکھنے میں انتہائی فخر محسوس کر رہا ہوں کہ سیالکوٹ کے علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، فیض احمد فیض کی طرح پروفیسر اصغر سودائی بھی سیالکوٹ کے ایک ایسے فرزند ہیں کہ سیالکوٹ ان کے نام پر ہمیشہ فخر کرے گا۔
مجھے اصغر سودائی صاحب سے چند بار ملنے کا شرف حاصل رہا ہے، شرافت اور سادگی کا مرقع تھے مرحوم، انتہائی شفقت اور پیار سے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے آخری ملاقات ان سے کچھ سال قبل ہوئی تھی، وہ سیالکوٹ کچہری سے اپنے گھر کی طرف پیدل جا رہے تھے، میں نے ان کو سڑک پر دیکھا تو رک گیا، بہت اصرار کیا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں لیکن نہیں مانے، فقط دعائیں دیتے رہے۔
مجھے ان سے شرفِ تلمیذ تو حاصل نہیں رہا کہ میری کالج کی زندگی سے بہت پہلے وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے لیکن میں ایسے بزرگوں سے ضرور ملا ہوں جو انکے شاگرد رہ چکے تھے، ان میں سے ایک مغل صاحب تھے، انکی قمیص کا سب سے اوپر والا بٹن ہمیشہ بند رہتا تھا، میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ بٹن بھری گرمیوں میں بھی بند رکھتے ہیں، کہنے لگے یہ اصغر سودائی صاحب کی نشانی ہے کہ جب ہمیں پڑھایا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ وضع داری کا تقاضہ ہے کہ اساتذہ کے سامنے تمام بٹن بند رکھے جائیں، موحوم خود بھی اس عادت کو نبھاتے رہے اور انکے شاگرد بھی۔
اللہ اللہ، وضع دار بزرگ اس دنیا سے چلے ہی جا رہے ہیں، لیکن جب تک پاکستان کا نام باقی ہے (اور یہ تا قیامت ہے انشاءاللہ) مرحوم اصغر سودائی صاحب کا نام اور ان کا نعرہ “ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” بھی باقی رہے گا۔
May 19, 2008
نعرۂ پاکستان کے خالق اصغر سودائی وفات پا گئے
متعلقہ تحاریر : اصغر سودائی,
سیالکوٹ,
محمد وارث,
میری تحریریں,
یاد رفتگاں
Labels:
اصغر سودائی,
سیالکوٹ,
محمد وارث,
میری تحریریں,
یاد رفتگاں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
وارث صاحب السلام علیکم۔۔ اس سے پہلے ایک بار کوشش کی تھی کہ آپ سے برقی تحریر کے ذریعے رابطہ ہوجائے۔ لیکن اپنی نالائقی کا اعتراف کرتاہوں کہ تیکنیکی لحاظ سے ناکام ہو گیا۔ واللہ آپ جس طرح اوزان اور بحر سمجھا رہے ہیں پہلے کبھی کسی نے نہیں سمجھائے۔ما شا ءاللہ آپ کے خیالات بحی بہے سلجھے ہوئے اور بہت پاکیزہ ہیں۔آپ نے بے حد قیمتی اور مفید جوہر پارے اس ویب سائٹ پر ٹانک رکھے ہیں۔حضرت علامہ اقبال کی فارسی غزل، بہر پیمان محبت نیست سوگند دگر کی بڑے عرصے سے تلاش تحی،جو آپ نے الحمداللہ ختم کرادی۔ جزاک اللہ۔میں آپ کی ویب سائٹ سے استفادہ کررہا ہوں۔
ReplyDeleteایک سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کوئی سافٹ وئر ہے جو یونی کوڈ کو ان پیج میں اور ان پیج کو یونی کوڈ مین تبدیل کردے۔ اگر جواب مثبت ہے تو یہ کہاں سے ملے گا؟ امید ہے آپ سے رابطہ رہے گا۔
میرے لائق کوئی خدمت ہو تو میرے لیئے عین سعادت ہوگی۔
نیازکیش۔۔۔۔۔۔ اشرف قریشی
ashraf.quraishi@gmail.com
اشرف قریشی صاحب خاکسار کے بلاگ پر خوش آمدید، بہت شکریہ آپ کے تبصرے اور کلماتِ تحسین کیلیے، بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اس بلاگ کو پسند کیا۔ ان پیچ سے یونی کوڈ میں کنورٹ کرنے والے ایک آدھ سافٹ ویئر کے بارے میں میں نے سنا ضرور ہے لیکن میرے استعمال میں نہیں رہا، بہرحال میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں، کوئی ربط یا اطلاع ملی تو آپ کو ضرور مطلع کرونگا۔
ReplyDeleteامید ہے بلاگ پر تشریف لاتے رہیں اور خاکسار کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔
والسلام
آن لائن کنورٹر
ReplyDeletehttp://urdu.ca/convert
محترم وارث صاھب۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ReplyDeleteجواب کے لیئے سپاس گذار ہوں۔جی ہاں ایسے سافٹ کے بارے میں سنا ہے، اللہ کرے آپ دھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں۔کیا آپ اس سلسلے میں میری رہ نمائی کر سکتے ہیں کہ نامعلوم نے کہا کی بجائے میرا نام کس طرح بلاگ کے آغاز میں آسکتا ہے؟ آپ نے انگریزی زبان میں اردو اوزان کی جس کتاب کو سراہا ہے کیا یہ آن لائین پر دستیاب ہے؟
صریرخامہءوارث کے تمام معاونین،قارئین اورحاضرین ومداحین کی خدمت میں سلام محبت وعقیدت۔
اشرف قریشی چیف ایڈیٹر و پبلشر ہفت روزہ ایشیا ٹربیون نیو یارک یو ایس اے۔
اشرف قریشی صاحب، یہ میری انتہائی خوش قسمتی ہے کہ ایک مؤقر ہفت روزہ کے چیف ایڈیٹر خاکسار کے بلاگ پر تشریف لا کر حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں، نوازش ٘محترم، بہت شکریہ۔
ReplyDeleteاپنے نام کیلیے آپ یہ کریں کہ جب آپ تبصرہ لکھ رہے ہوتے ہیں تو تبصروں والے خانے کے نیچے ایک ڈراپ ڈاؤن باکس نظر آ رہا ہوتا ہے۔
comment as: select your profile
اس میں آپ
Name / URL
کو سلیکٹ کریں تو وہ آپ کو اپنا نام لکھنے کیلیے کہے گا، نام کے خانے میں اپنا نام اور یو آر ایل میں اپنی ویب سائٹ کا ربط دے دیں، اسکے بعد تبصرہ پوسٹ کریں گے تو آپ کے نام سے شائع ہوگا۔
کنورٹر کیلیے باسم نے اوپر ربط دیا ہے اس کو دیکھ لیں
http://urdu.ca/convert
دراصل میرے پاس ان پیچ کی کوئی تحریر نہیں وگرنہ میں بھی کوشش کرتا۔
جس کتاب کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ آئن لائن ہے ربط یہ ہے
http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00ghalib/meterbk/00_intro.html
اسکے علاوہ اس بلاگ کی سائیڈ بار میں روابط - علمِ عروض کے تحت بھی میں نے اس کا ربط دے رکھا ہے۔
اور آخر اپنی طرف سے اور اپنے قارئین کی طرف سے ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اپنا قیمتی وقت صرف کر کے خاکسار کے بلاگ پر تشریف لاتے ہیں۔
والسلام مع الحترام
محترم جناب وارث صاحب۔۔۔۔۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
ReplyDeleteآپ کی عنایت ہے، وگرنہ من آنم کہ من دانم
آپ جو کام کر رہے ہیں وہ منفرد اور یگانہ ہے میں تو وہی کر رہا ہوں جو اور بہت سے لوگ جنھیں روزگار کمانے کے گر نہیں آتے وہ کرتے چلے آئے ہیں۔آپ کی رہنمائی کا شکریہ۔ باسم صاحب کا بھی سپاس گذارہوں آپ سےاظہار عقیدت کے بعد اس ربط کو دیکھوں گا، ان شاءاللہ۔ یوں ہی گاہے گاہے کچھ سیکھنے کی غرض سے حاضر ہوتا رہوں گا ۔ تمام " وارثی " بھائیوں کے کسی کام آسکوں تو یہ میرے لئے اعزاز ہوگا۔ تمام "وارثیوں " کی خدمت میں سلام نیاز مندانہ۔
نیاز کیش اشرف
محبت ہے آپ کی اشرف قریشی صاحب، بہت شکریہ آپ کا۔
ReplyDeleteالسلام علیکم
ReplyDeleteآپ کے بلاگ پہ مجھ جیسوں کیلئے ایک خزانہ چھپا ہوا ہے،وقت کی کمی آڑے آتی ہے ورنہ دل کرتا ہے کہ ایک کے بعد ایک تحریر پڑھتے ہی جائیں۔
مجھے اس سے پہلے یہ نہیں معلوم تھا کہ نعرہٗ پاکستان کس نے تخلیق کیا تھا۔اب اس کو میں اپنی نا اہلی کہوں یا اپنے "بڑوں" کی!
خیر اب آپ سے سیکھنے کو مل رہا ہے اور کیا چاہیے!
جزاک اللہ خیر
ولسلام
بہت شکریہ عمیر، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteپاکستان بننےسے قبل مجھے بحيثيت پرائمری سکول کے بچے کے يہ نعرہ لگانے کا شرف حاصل ہے
ReplyDeleteکالج کے لڑکوں نے پہلی بار سکول کے لڑکوں کو جلوس ميں شامل کيا تھا اور آٹھ سے بارہ سال کے بچوں کو صرف مسلمانوں کے محلہ والی سڑک پر شامل کيا تھا ۔ سو ميں بھی اس ميں شامل ہوا کيونکہ يہ سڑک ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلہ پر تھی ۔ اس جلوس ميں کالج کے لڑکوں نے يہ نعرے لگائے تھے
What do you want ? Pakistan
پاکستان کا مطلب کيا ؟ لا الہ الا اللہ
لے کے رہيں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
بہت شکریہ بھوپال صاحب۔
ReplyDelete