پچھلے دنوں اپنے بیٹے کو اردو الفاظ کے ہجّے یاد کرنے کی مشقت کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے بھولے بسرے تیس سالہ پرانے دن یاد آ گئے جب میں اسی کی عمر کا تھا اور اسی طرح اردو ہجّوں کے ساتھ پنجابی میں 'کُشتی' کیا کرتا تھا، الف زیر سین اِس، لام زبر الف لا، میم ما 'قُف' اسلام، مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا کہ یہ جو ہر لفظ کے آخر میں ہمارے اساتذہ 'قُف' لگا دیتے تھے وہ کیا بلا ہے شاید 'موقوف' ہو۔
جملۂ معترضہ کا تحریر میں آ جانا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن نہ جانے میری تحاریر میں یہ آغاز میں کیوں در آتا ہے کہ اصل بات کی طرف قاری کا دھیان ہی نہیں جاتا، جیسا کہ پچھلے دنوں ایک رباعی بلاگ پر لکھنی تھی لیکن خواہ مخواہ اسکے آغاز میں ایک پیوند لگا دیا، بلاگ تو بلاگ اردو محفل پر بھی چند ایک احباب کے سوا سبھی نے رباعی کی بجائے پیوند پر بات کی۔ ڈر رہا ہوں اس بات سے کہ لکھنا کچھ عروض پر چاہ رہا ہوں اور بات پھر اپنی ایک یاداشت سے شروع کر دی ہے کہیں رباعی والا حشر ہی نہ ہو۔ اس ڈر کی کئی ایک وجوہات ہیں، علمِ عروض دراصل ایک 'ہوا' ہے جس سے عام قاری تو بدکتا ہی ہے اچھے خاصے شاعر بھی بدکتے ہیں، نہ جانے کیوں۔
دراصل شعر کہنے کا عمل تین حصوں پر مشتمل ہے، شعر کہنا، شعر بنانا اور شعر توڑنا اور انکی ترتیب اس ترتیب سے بالکل الٹ ہے جس ترتیب سے میں نے انہیں لکھا ہے، اور وجہ یہ کہ ہر شاعر فوری طور پر شعر کہنے پر پہنچتا ہے اور بے وزن شعر کہہ کر خواہ مخواہ تنقید کا سامنا کرتا ہے، حالانکہ یہ سارا عمل، ایک شاعر کیلیے، شعر توڑنے سے شروع ہوتا ہے، جب کسی کو شعر توڑنا آ جاتا ہے تو ایک درمیانی عرصہ آتا ہے جس میں وہ شعر 'بناتا' ہے اور اسی کو مشقِ سخن کہا جاتا ہے اور جب کسی شاعر کو شعر کہنے میں درک حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہ جو شاعری کرتا ہے اسی کو صحیح معنوں میں 'شاعری' کہا جاتا ہے پھر اسکے ذہن میں شعر کا وزن نہیں ہوتا بلکہ خیال آفرینی ہوتی ہے۔
اب شعر توڑنا جسے علمِ عروض کی اصطلاح میں تقطیع کرنا کہا جاتا ہے، اور تقطیع کا مطلب بذاتِ خود قطع کرنا، پارہ پارہ کرنا، ٹکڑے کرنا ہے، وہی عروض کی کلید ہے، کنجی ہے، اگر کسی کو شعر توڑنا یا تقطیع کرنا آ گیا تو یوں سمجھیں کہ اسے شعر بنانا بھی آ گیا اور بنانے کے بعد یقیناً اگلا مرحلہ شعر کہنا بہت دور نہیں ہے۔
لیکن تقطیع پر لکھنے سے پہلے مجھے بہتر معلوم ہو رہا ہے کہ علمِ عروض پر بھی کچھ عرض کر دوں کہ عروض ہے کیا اور یہ کیوں ضروری ہے۔ شاعری کی ابتدا بہت پرانی ہے شاید اتنی ہی پرانی جتنی بولنے کی یا تحریر کی لیکن علم عروض کی تاریخ پہلی صدی ہجری یعنی کوئی تیرہ چودہ سو سال سے ہے، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ علمِ عروض سے میری مراد، اس تمام تحریر اور آئندہ تحاریر میں، انشاء اللہ بشرطِ زندگی و فرصت و صحت، عربی و فارسی و اردو علمِ عروض ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں شاعری کو 'جانچنے' کا اپنا ایک طریقہ ہے لیکن عربی، فارسی، اردو، سنسکرت، ہندی، پنجابی، سندھی اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں عروض کا 'ہجّائی نظام' ہے یعنی یہ ہجّوں پر مشتمل ہے۔ عروض کی تاریخ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعری علمِ عروض کو سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ علمِ عروض سے صرف شاعری کو جانچا جاتا ہے، ناپا جاتا ہے اور اس علم کی ایجاد سے پہلے جو شاعری تھی اس کو سامنے رکھ کر ہی اس علم کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے تھے، اور اب ان اصولوں پر عمل کرنا گویا شاعروں پر فرض سا ہو گیا ہے۔
دنیا کی کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ، ہجّوں یا جسے انگریزی میں 'سیلیبلز' کہا جاتا ہے، سے مل کر بنتا ہے اور یہی علمِ عروض کی کلید ہے، لفظ حرفوں سے بنتا ہے اور الفاظ کی ایک خاص ترتیب سے بحر بن جاتی ہے اور غزل یا نظم کے ہر شعر میں اس ترتیب کو برقرار رکھنا، بس اتنا سا کام ہے جس سے کوئی بھی کلام موزوں یعنی با وزن یا شاعری کہلواتا ہے۔ اب اس ساری بات میں 'ہجّے' کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، ہجّے کو آپ یوں سمجھیں جیسے یہ ایٹم ہے اور اسی بنیاد پر ساری شاعری کی عمارت کھڑی ہے۔
ایک وضاحت یہاں ضروری ہے، انیسویں صدی تک عربی، فارسی اور اردو نظامِ عروض متحرک اور ساکن کے گورکھ دھندے پر مشتمل تھا جس میں بے شمار خامیاں تھیں، ان خامیوں کا علمِ عروض کے سب ماہرین کو علم تھا لیکن بجائے انکے دور کرنے کے انہوں نے اس علم کو مزید مشکل اور چیستان بنا دیا۔ تفصیلات کا میں یہاں متحمل نہیں ہو سکتا اور اسٹیفن ہاگنگ کو اس کے پبلشر کی طرف سے کی جانی والی نصیحت یاد ہے کہ 'اے بریف ہسٹری آف ٹائم" میں جتنی بھی مساوات لکھو گے ان میں سے ہر مساوات کتاب کی فروخت کو آدھی کر دے گی سو یہاں روایتی علمِ عروض کے نقائص کی بحث کو چھوڑتا ہوں، لیکن ہمیشہ کی طرح یورپی مستشرقین نے ان نقائص کو نہیں چھوڑا بلکہ علمِ عروض پر تحقیق کر کے ہجّائی یا اشاری نظام متعارف کیا جس سے اس علم کے سارے نقائص دور ہو گئے، ایرانی علماء و فضلاء نے بھی اس پر لبیک کہا بالخصوص ڈاکٹر پرویز ناتل خانلزی نے اپنی کتاب "فارسی عروض کی تنقیدی تحقیق اور اوزانِ غزل کے ارتقاء کا جائزہ" (اردو مترجم بذلِ حق محمود) میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اب اردو ماہرینِ عروض بھی اس طرف توجہ کر رہے ہیں اور اپنی کتب میں روایتی نظام کے ساتھ ساتھ ہجائی یا اشاری نظام کو بھی جگہ دیتے ہیں۔ مستشرقین نے علمِ عروض کو، جو سراسر ریاضی کے اصولوں پر مشتمل ہے لیکن اس کو ریاضی کی علامات میں ظاہر نہیں کیا جاتا تھا، ریاضی کی عام علامتوں میں بھی ظاہر کیا اور یہ انکا ایک ایسا احسانِ عظیم ہے کہ جو تا قیامت ہم پر رہے گا کہ اس خاکسار کو اس علم کی کنہ یا کلید انہی علامتوں کی مدد سے سمجھ میں آئی تھی۔
اس طویل تمہید کے بعد، ہجّوں پر کچھ عرض کرتا ہوں، جیسا کہ اوپر لکھا، ہر لفظ ہجّوں میں توڑا جا سکتا ہے جیسے لفظ 'اسلام'، اس لفظ میں تین ہجّے ہیں، الف زیر سین اس، لام زبر الف لا اور میم ساکن یعنی اس، لا اور م، اسی طرح لفظ 'مسلمان'، اس میں چار ہجّے ہیں، یعنی میم پیش مو سین زبر لام سل، میم الف ما اور نون ساکن یعنی مُ سل ما ن، ان دو مثالوں سے ہمارے سامنے دو طرح کے ہجّے سامنے آ رہے ہیں، اور ہر لفظ انہی دو طرح کے ہجّوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک ہجا وہ ہے جو دو حرفوں پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا ہجا وہ ہے جو صرف اور صرف ایک حرف پر مشتمل ہے، جیسے اسلام کے اس اور لا میں دو دو حرف ہیں اور اسی طرح مسلمان کے سل اور ما میں یعنی یہ دو حرفی ہجّا ہے جب کہ اسلام کا آخری میم یک حرفی ہجا ہے اسی طرح مسلمان کا مُ اور نون یک حرفی ہجے ہیں۔
یعنی ہر لفظ میں دو طرح کے ہجے ہوتے ہیں، دو حرفی اور یک حرفی، یقین مانیں کہ اگر کسی قاری کو کسی لفظ میں ہجوں کی پہچان ہو گئی اور یہ علم ہو گیا کہ کون سا ہجا یک حرفی ہے اور کون سا دو حرفی تو یوں سمجھیں کہ علم عروض کا جن آپ کے قبضے میں آ گیا۔ کچھ اور مثالیں دیکھتے ہیں۔
لفظ 'شاعر' - یعنی شا اور عر یعنی یہ لفظ دو ہجوں پر مشتمل ہے اور دونوں دو حرفی ہیں۔
لفظ 'شاعری' یعنی شا عِ ری یعنی یہ لفظ تین ہجوں پر مشتمل ہے جس میں شا اور ری دو حرفی ہجے ہیں اور عِ یک حرفی ہجا ہے۔
اب ہم ان مثالوں سے اصول اور انکی تعریف مرتب کرتے ہیں۔
دو حرفی ہجّا یا ہجّائے بلند - کسی بھی لفظ میں یہ ایک ایسا ہجّا ہوتا ہے جو دو حرفوں پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ دونوں حرف آپس میں کسی حرکت (زیر زبر یا پیش) کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں، جیسے دل، کل، غم، دن، شب، جُو، چُن وغیرہ وغیرہ یا لفظ اسلام میں اس اور لا، لفظ مسلمان میں سل اور ما، لفظ وارث میں وا اور رث وغیرہ وغیرہ۔ دوحرفی ہجے کو اصطلاح میں 'ہجّائے بلند' کہا جاتا ہے اور اشاری نظام میں اسے کسی بھی علامت سے ظاہر کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اسے علامت '2' سے ظاہر کرتے ہیں۔
یک حرفی ہجّا یا ہجّائے کوتاہ - کسی بھی لفظ میں اکیلا حرف چاہے وہ ساکن ہو یا متحرک جیسے لفظ اسلام میں ساکن میم یا لفظ مسلمان میں پہلی متحرک میم اور آخری ساکن نون، یا لفظ 'صریر' میں صاد متحرک اور آخری رے ساکن۔ یک حرفی ہجّے کو اصطلاح میں ہجّائے کوتاہ کہا جاتا ہے اور علامت میں اسے '1' سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
اب اس تعریف کے بعد چند لفظوں کو پھر دیکھتے ہیں اور یہ واضح کروں کہ ہندسوں کو اردو طرزِ تحریر یعنی دائیں سے بائیں پڑھنا ہے۔
اسلام یعنی اس لا م اب اگر اس لفظ کو علامتوں میں ظاہر کریں تو یہ 2 2 1 ہوگا۔
اسی طرح 'مسلمان' یعنی م سل ما ن اور علامتوں میں یہ 1 2 2 1 ہے۔
اسی طرح وارث یعنی وا اور رث یعنی 2 2۔
یعنی اگر میں یہ کہوں "پہلا سبق" تو کیا اسے جملے کو علامتوں میں ظاہر کیا جا سکتا ہے، کیوں نہیں یعنی پہلا یعنی پہلا میں دو ہجائے بلند ہیں تو اس کو 22 سے ظاہر کریں اور سبق میں ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند ہے تو اسے 1 2 سے ظاہر کریں گویا
پہلا سبق یعنی 22 21۔
اور اگر یہ کہوں 'سبق پہلا' تو اب اس کی ترتیب ہوگی 21 22۔
اور اگر اب یہ کہوں 'ملا ہم کو' تو اسکی ترتیب کیا ہوگی، مشق کریں، چلیں میں لکھ دیتا ہوں
مِ لا ہم کو یعنی 1 2 2 2۔
اب غور کریں
سبق پہلا
ملا ہم کو
کیا یہ شعر ہے؟ کیوں نہیں، یا شعر ہو نہ ہو وزن میں ضرور ہے کیسے؟ پھر دیکھیں
سبق پہلا
ملا ہم کو
اشاری نظام میں لکھیں
2221
2221
جی ہاں، آپ نے صحیح پہچانا دونوں مصرعوں یا جملوں میں ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند ایک ہی ترتیب سے آ رہے ہیں اور یہی شعر کا وزن ہے کہ اس کے دونوں مصرعوں میں ہجائے بلند کے اور ہجائے کوتاہ کی ترتیب ایک جیسی ہے۔ یعنی اب ہم وزن کی تعریف کچھ اسطرح سے کر سکتے ہیں کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں اگر ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کی ترتیب ایک جیسی ہو یعنی ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ تو اس کو شعر کا وزن کہیں گے۔
پھر دیکھیں
سبق پہلا
ملا ہم کو
کہا ہم نے
نوازش ہے
مشق کے طور پر ان کو علامتوں میں لکھنے کی کوشش کریں، آخری بات یہ کہ یہ وزن یعنی 'سبق پہلا' یا 2221 دراصل مفاعیلن ہے جو کہ عروض کی خاص اصطلاح ہے اور اسی کے الٹ پھیر سے کئی اوزان بنتے ہیں۔ ہم نے اسے 'سبق پہلا' کہا، انشاء اللہ خان انشاء لکھنؤ کی روایت کے عین مطابق اسے 'پری خانم' سے ظاہر کرتے تھے۔ دیکھیئے، مَفَاعیلُن یعنی مَ فا عی لُن یعنی 1 2 2 2 یعنی اگر صرف مفاعیلن کے وزن پر کچھ کلام کہا جائے اور ہر مصرعے میں یہی وزن ہو تو آپ کے 'شاہکار' کو کوئی 'عروضیا' یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ بے وزن ہے۔
یہاں پر اس تحریر کو چھوڑتا ہوں اس امید پر کہ انشاءاللہ گاہے گاہے اس پر لکھتا رہونگا۔ مجھے افضل صاحب کی فرمائش یاد ہے جس میں نے انہوں نے کہا تھا کہ 'مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام' کی کچھ تقطیع لکھوں لیکن اس تحریر سے پہلے یہ تقطیع ان کیلیے بے معنی ہوتی، انشاءاللہ آئندہ اس نعت کی تقطیع لکھنے کی کوشش کرونگا۔
May 7, 2009
علمِ عروض اور ہجّے
متعلقہ تحاریر : تقطیع,
علم عروض
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
استاد مان لیا آپ کو آج سے
ReplyDeleteبہت بہت بہت بہت بہت نوازش
تھوڑا کم دماغ ہوں لیکن آپ جیسا استاد مل گیا ہے تو رواں ہو جاؤں گا۔۔۔
دلی شکریہ قبول کیجئے۔۔۔
جیسا آپ نے سمجھایا واللہ ایک ایک لفظ سمجھ میں آگیا ہے۔۔۔ شکریہ ۔۔۔ نوازش۔۔۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔۔۔
نون غنہ اور” آ “ کا کیا وزن ہوگا۔۔مطلب ہجائے بلند ہوں گے یا ہجائے کوتاہ۔۔۔
ReplyDeleteشکریہ جعفر، نوازش۔ آ میں دراصل دو الف ہیں سو یہ ہجائے بلند ہے، نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا، ہاں نون معلنہ کا یعنی جس نون کا اعلان کیا جائے اسکا وزن ہوتا ہے، جیسے جہاں اس میں ایک ہجائے کوتاہ جَ اور ایک ہجائے بلند ہا ہے، جبکہ جہان میں تین ہجے ہیں، جَ ہا اور ن۔ اسی طرح دو چشمی ھ کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا یعنی ‘بھی‘ کو صرف ‘بی‘ یا ہجائے بلند سمجھا جائے گا۔
ReplyDeleteوارث صاحب
ReplyDeleteاس نیک کام کے شروع کرنے پر مبارک قبول کیجئے. یقین کیرں بیس تیس سال قبل جب ہم نے شاعری میں دلچسپی لینی شروع کی، بازار میں علم عروض کی کتاب ہی دستیاب نہیں تھی. آپ کی بتائی ہوئی کتاب پڑھ رہے ہیں اور اس پر سونے پہ سہاگہ آپ کے اسباق بن گئے ہیں. امید ہے یہ مشق جاری رکھیں گے اور اسے الگ کیٹیگری میں ڈال دیں گے.
سوالوں کے جوابات اگر اپنے اسباق میں دیتے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا. امید ہے کسی دن ہم بھی اپنی بے تکی شاعری کو وزن میں ناپنا شروع کر دیں گے.
السلام علیکم
ReplyDeleteوارث صاحب میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شاعری ایسے کی جاتی ہے اور اس میں ایک پورا مضمون چھپا ہے۔ ۔ میرا خیال تھا کہ شاعر بس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے!!
اردو محفل پہ اس طرح کی چیزیں نظر سے گزری تھیں پر ایسا لگا تھا کہ جیسے یہ سب عام بندے کہ بس کا کام نہیں اور ہم جیسے انجینئرنگ کے طالبعلم بس سرکٹ ہی جوڑ توڑ سکتے ہیں۔ ۔ ۔ پر آپ کا سبق پڑھ کر نہ صرف علم(جو کہ تھا ہی نہیں۱) میں اضافہ ہوا ہے بلکہ سیکھنے میں دلچسپی بھی پیدا ہوئی ہو۔ ۔ ۔ آپ واقعی ایک قابل استاد ہیں۔بہت شکریہ
ولسلام
سچ بتاؤں صاحب تو یہ پہلی بار ہے کہ اتنی وسعت سے شاعری کے اجزاء بارے پڑھا۔ یہ اب آپ ہمارے دور کی کوتاہی کہیں یا ظلم، ہمارے ہم عصر بشمول میرے ان باریکیوں سے ناآشنا ہیں۔ باریکیاں تو چھوڑیں، میں اپنی بات کروں تو شاید بنیادی چیزوں سے بھی نا واقف ہوں۔ b-(۔
ReplyDeleteوقف شاید موقوف ہی ہے، کیونکہ ہم جب سکول، مکتب میں دہرایا کرتے تھے تو اسے ہم "ماقوف" کہا کرتے تھے۔
کافی تکنیکی باتیں ہیں جناب۔~x(
وارث صاحب۔ سب سے پہلے تو اتنے بہترین سلسلے کو شروع کرنے پر شکریہ۔ ایک ہی سبق میں ہمیں ایسا سبق ملا کہ واللہ کتابیں پڑھتے رہ جاتے تو بھی نا جان پاتے۔ امید ہے یہ سلسہ جاری رہے گا۔ اور تیکنیک کی آگہی انشاءاللہ ذوق کی بالیدگی کا سبب بنے گی۔
ReplyDeleteبہت شکریہ آپ سب برادران کا پسندیدگی اور پذیرائی کیلیے، میں انشاءاللہ اس موضوع پر مقدور بھر لکھتا رہونگا۔
ReplyDeleteنہ جی نہ ۔ ہم سے اتنی ٹیڑھی کھیر نہیں کھائی جاتی ۔ ہم "موقوف" ہوئے
ReplyDeleteبہت عمدہ، وارث بھائی۔ اگلے اسباق کا انتظار رہے گا۔
ReplyDeleteاجمل صاحب کچھ جلدی نہیں موقوف کر دیا آپ نے، شکریہ سعادت صاحب انشاءاللہ مقدور بھر لکھتا رہونگا۔
ReplyDeleteافضل صاحب، دراصل بلاگ سپاٹ پر کیٹیگریز نہیں ہیں بلکہ صرف ٹیگز ہیں، لیکن ایسی تمام تحاریر ‘علم عروض‘ ٹیگ سے مل جائیں گی جو کہ سائیڈ بار میں ظاہر ہو رہا ہے۔
السلام علیکم
ReplyDeleteوارث، آپ کے بلاگ کا خاموش قاری تو میں کافی عرصے سے ہوں۔ لیکن آج آپ کی تحریر نے تبصرے پر مجبور کر ہی دیا۔
کئی دفعہ عروض کے اسباق دیکھے مگر ایک آدھ صفحے کے بعد ہی طبیعت اچاٹ ہو جاتی تھی۔ آپ کا مضمون شروع کیا تو پھر اختتام پر پتہ چلا۔
پہلی دفعہ کچھ عروض بارے سمجھ لگی۔ اس کو جاری رکھئے گا
سیفی
بہت شکریہ سیفی صاحب، نوازش آپ کی، اور چونکہ یہ آپ کا پہلا تبصرہ سو بہت خوش آمدید برادرم۔
ReplyDeleteکرم کردے مرے مولٰی
ReplyDeleteترے در کا سوالی ہوں
سخن پہلا ہوا ہم سے
کہو تم بھی سخن ہے یہ
باسم صاحب آپ نے بالکل صحیح سمت میں سفر کا آغاز کر دیا ہے۔
ReplyDeleteمسافروں کا احتجاج
ReplyDeleteبھری گاڑی، نہیں خالی
چلا بھی لے گدھا گاڑی
گائے
اٹھی گائے ہلی گردن
صدا آئی ٹنا ٹن ٹن
جہاں مامتا وہاں ڈالڈا
ReplyDeleteبھی اسی وزن پر موزون نظر آیا
اور اب
سبق دوجا ملے ہم کو
ہماری یہ خواہش ہے
باسم صاحب مجھے خوشی ہے کہ آپ مشق کر رہے ہیں اور افسوس ہے کہ فقط آپ ہی کر رہے ہیں :)۔
ReplyDeleteآپ نے جو پہلی مثالیں لکھی تھیں ان میں ‘مسافروں کا احتجاج‘ صحیح نہیں ہے آپ انہیں ‘مفاعیلن مفاعیلن‘ وزن یا ‘2221 2221‘ پر کہہ رہے ہیں لیکن مسافروں کا احتجاج یہ بنتا ہے
م 1 سا 2 ف 1 رو 2 کا 2 اح 2 ت ا جا2 ج1
یعنی فرق ہے۔
اسی طرح ‘جہاں مامتا وہیں ڈالڈا‘ کا وزن بھی یہ نہیں بن پا رہا گو کہ یہ ایک دوسرا وزن یا پیٹرن بن سکتا ہے۔
سبق دوجا ملے ہم کو، یہ ٹھیک ہے
ہماری یہ خواہش ہے، ٹھیک نہیں کیونکہ یہ لفظ خ وا ہش نہیں بلکہ خاہش ہے یعنی 221 نہیں بلکہ صرف 22 ہے۔
یہ خواہش اب ہماری ہے، ٹھیک ہوگا۔
انشاءاللہ مزید لکھتا ہوں۔
خطاب کیلیے صرف باسم ٹھیک ہے۔
ReplyDeleteاور مسافروں کا احتجاج فقط عنوان تھا وزن مقصود نہیں تھا
ڈالڈا والے کی کچھ سمجھ آگئی کچھ وضاحت دوسرے سبق کی مشق میں ہوجائے گی جو تیار ہے۔
ہماری یہ خواہش ہے
پہلے غلط سوچا پھر اسے ٹھیک کرلیا تھا جو موبائل میں محفوظ بھی ہے مگر یہاں غلط لکھ بیٹھا
صحیح یوں ہے
سبق دوجا ملے ہم کو
ہماری یہ گزارش ہے
بہت اچھی بات ہے کہ آپ ذوق و شوق سے یہ مرحلہ طے کر رہے ہیں، اور انشاءاللہ اس علم پر عبور آپ کو حاصل ہو جائے گا اگر یہ ذوق و شوق اور مشق اسی طرح جاری رہی تو۔
ReplyDeleteامید ہے وارث صاحب کے دیر سے کلاس میں داخلے پر معاف کر دیں گے
ReplyDeleteمیں نے پہلے دن سے یہ تحریر فیورٹ میں رکھی ہوئی تھی کہ مشکل ہو گی تسلی سے پڑھوں گا
لیکن میں مان گیا استاد
مجال ہے جو ایک لفظ بھی سر سے گزرا ہو
سارے کے سارے سیدھے دماغ میں جا بیٹھے ہیں
اور مجھے تو اپنا آپ ایک جاہل اور گنوار لگ رہا ہے
جو بڑا اردو کا عاشق بنا پھرتا ہے
قسم لے لیں مجھے تو لگتا ہے کہ میں یہ بلاگ نا پڑھتا تو ساری عمر اس علم سے نا آشنا ہی رہتا
جس کے ل۴ے بہت بہت شکریہ
جناب ڈفر نے میرے دل کی بات کہہ دی
ReplyDeleteمیں بھی علم عروض سے ناواقف تھا
لیکن آپ کی بدولت
یہ علم، تعلیم بن کر مجھ تک پہنچا
خدا آپ کو مزید ہمت عطا کرے
آمین
نوازش برادران۔
ReplyDeleteمحترم ذرا فراز کی اس غزل کی بحر سے بھی آگاہ کر دیجیے
ReplyDeleteاب جو کانٹے ہیں دل میں تمناؤں کے پھول تھے
آج کے زخم پہلے شناساؤں کے پھول تھے
وہاب صاحب یہ شعر فاعلن پانچ بار پر تقطیع ہو رہا ہے، بحر متدارک مثمن فاعلن چار بار ہے، لیکن بعض دفعہ شاعر بحروں کے ساتھ تجربے کی کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ فراز نے ایسا ہی کیا ہو اور اس بحر پر ایک رکن بڑھا لیا ہو، کیا آپ اس غزل کے مزید اشعار پوسٹ کر سکتے ہیں۔
ReplyDeleteوالسلام
ہمیشہ کی طرح اعلٰی ۔۔۔۔
ReplyDeleteوارث بھائی یقین کیجئے آپ کی تعریف کرنے کو الفاظ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مگر الفاظ میں اپنے احساسات کو ڈھالنا اور پیش کرنا ضروری بھی ہے اور الفاظ کے سانچے کو استعمال کرنا شاید مجبوری بھی کہ اپنے احساس کو آپ تک پہنچانا بھی ہے۔ اللہ آپکی عمر دراز فرمائیں اور ہر قسم بلیات و آفات سے آپ کی حفاظت بھی فرمائیں اٰمین ۔
والسلام
نعمان بہت شکریہ آپ کا برادرم ان کلماتِ خیر کیلیے، نوازش آپ کی۔
ReplyDeletesalam,aap ka blog meray liay lecture ki haisiat ikhtyar kar chuka hai...aapka tarz e hai bayan nehayat lateef hai k uktahat ka sawal hi paida nhi hota.... urdu font mey likny sy kasir ho'n is ki wja aap masrofiat hi hain aur hamesha ki tarah sust mezaji b...mey engineering ka student ho'n mgr science pahailia'n smj sy bala thar hain .. mezajn jhukao urdu adab ki taraf ziada hai... qaraar sarhadi takhalus rakhty hain mgr aapki ye tehreerain parr kr hamay pata laga k hum abhi KG jumat mey hi hai... mandarja zail gazal ki tasneeh darkar hai... fani lehaz sy tankeed ka muntazir.... is silsily ko pori lagan sy jari rakain bahot bahot nawazishain.... talab e dua...
ReplyDeleteKalaam: QARAAR SARHADI
Jahan daikon shor e faryad aah o fagha'n daiko'n,
teri galio'n mey a watan kho'n e rawa'n daiko'n,
kis smt ko jayega meray katthay laho ka jaam ab,
kasa liay qatar mey khanjar liay yazda'n daiko'n,
hasrat o alam mey gal rahy hain latky ho way chehry,
malma'u charrai rehbaro mey na koi khairkhwa'n daiko,
ye maghrib k shaidai hain jamhoriat k rakwaly,
islam ko papand e salasal pas e zandan daiko'n,
qatra qatra tapka meray wajod ka par kia daiko'n,
mery wajud k tukro pa palta meer e karwa'n daiko'n,
QARAAR ko ab kyunkar qaraar naseeb ho k usy mey,
khalwato mey apny tiyain dast o gariba'n daiko'n
typing mey koi ghalti howi ho to foran sy paishter maafi ka talabgaar
ReplyDeleteشکریہ آپ کا نعمان وزیر صاحب، نوازش آپ کی ان کلماتِ خیر کیلیے، امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔
ReplyDeleteوالسلام
gazal k bary mey kia rai rakty hain...
Deleteسلام وارث صاحب
ReplyDeleteجناب کے کہے اور لِکھے پہ رائے دینا کم از کم مجھ کم عِلم کے بَس کی بات نہیں
صِرف اِتنا کہوں گا کہ آپ کی یہ کوشش نئے آنیوالے لوگوں کے لِئے رہنمائی کا ذریعہ بنے گی۔۔۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔آمین
نوازش آپ کی ملک صاحب، بہت شکریہ آپ کا،
Deleteخود کو میں نے بدلا ترے چلے جانے سے پہلے
ReplyDeleteخود :2
کو:1
میں :2
نے:2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بد:2
ل:1
تر:2
ے:1
چل:2
جا:2
ن:1
سے:2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہ:2
لے:2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم:2
تم مجھ سے ہی تھے بچھڑ ے میرے بدل جانے سے پہلے
ن قوانین کو مد ِ نظر رکھتے ہوۓ تقطیع کیا یوں ہو سکتی ہےاا
بہت خوب، استاد وارث صاحب۔
ReplyDeleteنوازش خان صاحب آپ کی، بہت شکریہ :)
Deleteدل کی یہ دھڑکن کہے آ
ReplyDeleteدل کی دل سن لے ابھی آ
کیا یہ اس قابل ہے کہ غزل مکمل کی جائے
Deleteجی ضرور مکمل کیجیے۔
Deleteاسلام علیکم سر میں اس بات سے بہت پریشان تھا کہ مجھے شعر یا غزل کا وزن سمجھ نہیں آ رہا یونہی بیٹھے بیٹھے نیٹ پر سرچ کیا آپ کی تحریر ملی یقین مانے پڑھ کر دل کو سکون ہو گیا بہت آسان الفاظ میں بہت بڑی بات سمجھا دی آپ کے پاس شاید لفظوں کا جادو ہے لوگ اپنے محبوب کے دیوانے ہیں میں آپ کا دیوانہ ہو گیا ہوں آپ میرے محسن ہیں آپ کی لکھی تحریر نے میری پریشانی دور کر دی اللہ آپ کو سلامت رکھے
ReplyDeleteبہت شکریہ محترم، نوازش آپ کی۔ مجھے بھی خوشی ہوئی کہ یہ تحاریر کسی کام آئیں۔ والسلام
Deleteسر آپ مزید ہماری رہنمائی کرتے رہئیے گا
ReplyDeleteعتیق الرحمن
جی عتیق صاحب، انشاءاللہ میں یہیں ہوں۔
Deleteبہت خوب وارث بھائی.اب اردو شاعری پڑھتے ہوۓ ذیادہ مزہ آۓ گا.
ReplyDeleteشکریہ محترم۔
Deleteعمدہ محترم
ReplyDeleteاردو شاعری کے لیے کبھی میرے بلاگ کی بھی سیر کریں اور مفید نصیحتوں سے نوازیں ۔
جی ضرور، انشاءاللہ۔
Deleteالسلام علیکم....جناب اس مصرعے کی بحراور تقطیع پررہنمائی فرمادیجئے نوازش ہوگی.....یہ کس نے بھیجی ہے خاک شفامدینے سے....
ReplyDeleteبحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
Deleteافاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔
تقطیع
یہ کس نے بھیجی ہے خاکِ شفا مدینے سے
یِ کس نِ بے - مفاعلن
جِ ہِ خا کے - فعلاتن
شفا مَ دی - مفاعلن
نے سے - فعلن
والسلام
'ملا ہم کو' کے ہجے مِ، لا، ہم، کُ کے حساب سے ١٢٢١ نہیں ہونگے ؟ و، ا اور ی آخر میں گرنہیں جاتے ؟؟
ReplyDeleteحروف علت کو حرف کے آخر میں گرانا لازمی نہیں ہے کہ ہر صورت میں گرانا ہی ہے بلکہ یہ اختیاری ہے اور شاعر بوقتِ ضرورت یعن وزن پورا کرنے کے لیے چاہے تو ان کو گرا دے اور چاہے رکھ لے۔
Delete