یہ غزل کوئی دو سال پرانی ہے اور اس زمانے کی ہے جب نیا نیا علم عروض سمجھ میں آیا تھا۔ آج کچھ پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے سامنے آ گئی تو اسے بغیر نظرِ ثانی کے لکھ رہا ہوں۔
یہ چلَن دنیا میں کتنا عام ہے
ظلم کا تقدیر رکھّا نام ہے
پھول بکھرے ہوئے تُربت پر نئی
اِس کہانی کا یہی انجام ہے
میرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے
دشت میں اک گھر بنا رہنے کی چاہ
گھر میں بیٹھے ہیں تبھی تو خام ہے
مسکراتے آ رہے ہیں آج وہ
کیا بھلا ہم مفلسوں سے کام ہے
متعلقہ تحاریر : محمد وارث,
میری شاعری
ReplyDeleteمیرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے
بہت خوب
شکریہ خان صاحب، نوازش آپ کی۔
Delete