درد کا کیا ہے جی، کبھی بھی کسی کو بھی کہیں بھی اٹھ سکتا ہے اور رنگ رنگ کا اٹھ سکتا ہے، بلکہ بے رنگ اور بد رنگ بھی کہ اس کو دو چار "تڑکے" لگا کر اپنی مرضی کے رنگ بھرے جا سکتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے دماغ میں درد اٹھتا ہے کہ وہ اپنے ازلی رقیب کا خانہ بن جاتا ہے اور کچھ کو زبان کا کہ کشتوں کو پشتے لگا دیتے ہیں لیکن سب سے خطرناک شاید وہ ہوتا ہے جو زبان کے جنوب مشرق میں اٹھتا ہے، جگہ تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن یہ درد اپنی ذات میں مختلف رنگ لیے ہوتا ہے کبھی قوم و ملک کا، کبھی رنگ و نسل کا، کبھی ملت و امت کا، کبھی دین و مذہب کا اور کبھی شعر و ادب کا، آخر بھئی کوئی چیز کسی کی جاگیر تھوڑی ہے۔
لیکن اس آخری درد کے بارے میں غالب مرحوم نے بات یہ کہہ کر ختم کر دی تھی۔
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
اللہ جنت نصیب کرے، مرزا بوڑھے ہو کر مرے، دنیا جہان کے عوارض اپنے آپ کو لاحق کرائے بجز دردِ دل کے، اور وہی دردِ دل جب سچ مچ اٹھا تو فیض پکار اٹھے۔
درد اتنا تھا کہ اُس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بنِ مو سے ٹپکنا چاہا
یقیناً "ہارٹ اٹیک" کی کیفیات کو فیض نے اسی نام کی نظم میں بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے لیکن کیا کیجے ان حضرات کا جنہیں بیدل جونپوری کے الفاظ میں اکثر کچھ ایسا درد اٹھتا ہے۔
ہیں یہاں دوشیزگانِ قوم بیدل با ادب
اس جگہ موزوں نہیں ہے فاعلاتن فاعلات
گرلز کالج میں غزل کا وزن ہونا چاہیے
طالباتن طالباتن طالباتن طالبات
لیکن دوشیزگان کے حق میں سب سے محلق وہ درد تھا جو 'مَنّے موچی' کے پیٹ میں اس وقت اٹھا جب اسکا بیٹا امریکہ سے ڈالر بھیجنے لگ گیا اور اس نے گاؤں کے چوہدری سے اسکی باکرہ بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کیلیے مانگ لیا، گویا دوشیزہ نہ ہوئی اردو شاعری ہو گئی۔
ہوتے تو جی دونوں 'کمّی' ہی ہیں، لیکن سارا فرق 'درجہ حرارت' کا ہے، کہاں وہ جو تنور کے اندر سر دیکر روٹیاں پکاتا ہے اور کہاں وہ جو کڑاھی کے اوپر کھڑا ہو کر دودھ جلیبیوں کا پیالہ ختم کرنے کے بعد ڈکار مارتا ہے۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا
اندھیری رات ہے، اور موج کا خوف ہے اور ایسا خوفناک بھنور ہے، ساحلوں کے بے فکرے اور انکی سیر کرنے والے، ہمارا حال کیسے جان سکتے ہیں؟
Mar 27, 2009
سبکسارانِ ساحل
متعلقہ تحاریر : محمد وارث,
میری تحریریں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
واہ! دن کے آغاز ہی میں اس قدر شاندار تحریر پڑھ کر لطف آ گیا!
ReplyDeleteلکھتے رہیے، وارث بھائی۔ :)
واہ صاحب۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔ بہت اعلی
ReplyDeleteوارث جی کی تحریر پڑھ کر سچی میں مزا آتا ہے بہت محنت کرتے ہیں کیا آپ یہ سب کچھ لکھنے کے لیےtanya rehman
ReplyDeleteبہت شکریہ سعادت صاحب، جعفر صاحب اور تانیہ رحمان صاحبہ، نوازش آپ سب کی۔
ReplyDeleteتانیہ صاحبہ، نہیں محنت تو نہیں ہاں دماغ میں کھچڑی سی ضرور پکتی رہتی ہے :)۔
قبلہ آپ کی یہ تحریر پڑھ کر تو ہمارے دل میں بھی ایک لہر سی اٹھ چلی ہے۔۔۔ لیکن اس نئی سمت کو بلاشبہ "تازہ ہوا" کہنا ہی مناسب ہے۔۔ کیا خوب لکھتے ہیں۔۔ ماشاءاللہ۔
ReplyDeleteآپ کی تحریریں اتنی اچھی ہوتی ہیں کہ ان پر تبصرہ کرنے کے لی لفظ ہی نہیں ملتے اس لیے چپکے سے نکل لیتا ہوں پڑھ کر۔
ReplyDeleteنوازش راشد صاحب اور شاکر صاحب، راشد صاحب یہ تازہ ہوا اور نئی لہر میرے خیال میں واقعی اہم، اللہ کرے چلتی رہے۔
ReplyDeleteبہت عمدہ وارث صاحب
ReplyDeleteآپ مانتے نہیں ہیں لیکن آپ ایک پکے اسیب واقع ہویے ہیں
تحریر سے پکے شاعر کا رنگ اور گہرا مطالعہ ٹپک رہا ہے
اسیب نہیں ادیب لکھنا تھا =(( تصحیح فرما کر شکریہ کا موقع دیں
ReplyDeleteورنی کسی فضلو نے مس انڈرسٹینڈنگ پیدا کر دینی ہے
شکر ہے آپ نے 'آسیب' نہیں لکھا اور یہ فضلو ہمیشہ 'مس انڈر سڈینڈنگ' ہی کیوں پیدا کرتا ہے بھئی کچھ اور بھی پیدا ہو :)۔
ReplyDeleteنوازش آپ کی برادرم کے آپ نے مجھے اس قابل سمجھا، شکریہ۔