Mar 28, 2009

مجھے تم سب سے نفرت ہے۔۔۔۔۔

اجی صاحب گھبرائیے مت، یہ میں اپنا حالِ دل نہیں کہہ رہا اور نہ ہی کبھی اتنے واشگاف الفاظ میں، دوسروں کو تو کیا اپنی انتہائی ذاتی بیوی کو بھی نہیں کہہ سکتا، یہ ایک نظم کا عنوان ہے۔ میں نظم کے میدان کا آدمی نہیں ہوں، بلکہ غزل و رباعی کا قتیل ہوں یا زیادہ سے زیادہ مثنویوں کا اور آزاد نظم کم کم ہی پڑھتا ہوں سوائے ن م راشد کے، کہ راشد کی نظم میں بھی چاشنی ہے۔

فاتح الدین بشیر صاحب، ہمارے دوست ہیں، ان سے تعارف کوئی دو سال پہلے 'اردو محفل' پر ہوا تھا اور یہ تعلق دوستی میں بدل گیا، انتہائی اچھے شاعر ہیں اور اتنے ہی بذلہ سنج، یہ نظم انہی کی ہے۔ آپ پچھلے سال ستمبر میں سیالکوٹ تشریف لائے تو اس خاکسار کو بھی شرفِ ملاقات بخشا، پروگرام تو ہمارا لمبا ہی تھا لیکن شومئی قسمت سے ان سے فقط ایک آدھ گھنٹے تک ہی بات چیت ہو سکی کہ ایک ناگہانی اطلاع کی بنا پر انہیں اسلام آباد واپس جانا پڑا، آج کل کراچی میں مقیم ہیں اور گاہے گاہے ان سے فون پر بات ہوتی رہتی ہے۔ اس ملاقات کا ذکر یوں آ گیا کہ انہوں نے اس نظم کے پسِ منظر پر کافی روشنی ڈالی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ کن حالات میں اور کس کی شان میں کہی گئی تھی جو افسوس کہ انکی اجازت کے بغیر میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔

یہاں میں فلسفۂ محبت و نفرت پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ انسانی زندگی کے یہ دونوں رخ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اس لحاظ سے ایک جیسے اور ایک جتنے ہی ہیں لیکن اس نظم میں بیان کی گئی ازلی و ابدی و آفاقی سچائیوں اور گہرائیوں کے ساتھ انسانی جذبوں کا گہرا امتزاج ہے، کئی دنوں سے یہ نظم ذہن میں گونج رہی تھی سوچا اپنے قارئین کی نذر کرتا چلوں۔

مجھے تم سب سے نفرت ہے از فاتح الدین بشیر

ارے او قاتلو
تم پر خدا کا رحم
جو تم نے
جہانِ دل کے سب کوچے، محلّے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گلسّتانِ تبسّم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں ڈھا کے
قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی جو سب
بزعمِ خود تھی یزدانی
جنہیں میں خضر سمجھا تھا
وہی شدّاد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصّہ
وہی بد ذات نکلے ہیں
تمھاری فتح میں تسلیم کر لوں گا
اگر تم
یہ شکستِ دل، شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علَم اک قرمزی جو اک علامت ہے
محبّت جاودانی کے جلال و فتحمندی کی
وہیں
اک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور علَم بھی ایستادہ ہے
مگر اس سرخ جھنڈے سے سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اس کے روئیں روئیں سے فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مرے تم سے تعلّق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دکھ کیا؟
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک مرے سینے میں اک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو نظم, فاتح الدین بشیر

9 comments:

  1. نظم کے پس منظر کا ذکر کرکے اور پھر اسے بیان نہ کرکے آپ نے ہمارے تخیل کو بے لگام چھوڑ دیا ہے، اب ہم نہ جانے کیا کیا سوچ رہے ہیں۔ اور اپنے کس کس دشمن کو اس نظم کے سانچے میں‌ فٹ کرکے دیکھ رہے ہیں۔ :shock:
    نظم بہت عمدہ ہے۔
    بیوی والی بات سے یاد آیا، کہیں پڑھا تھا کہ بیوی سے اظہار محبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے، جسم کے اس حصے پر کھجلی کی جائے جہاں خارش نہ ہورہی ہو۔۔
    اور اب آپ نے اظہار نفرت کو بھی اسی میں شامل کر دیا ہے۔۔۔
    ایسی تحریریں بیویوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔۔ :mrgreen: :mrgreen:

    ReplyDelete
  2. اگر تم
    یہ شکستِ دل، شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
    مگر اب تک ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
    علَم اک قرمزی جو اک علامت ہے
    محبّت جاودانی کے جلال و فتحمندی کی
    nice poem . . .(not supporting writing in urdu )

    umeed

    ReplyDelete
  3. السلام علیکم
    وارث صاحب ، اتنی متاثر کن نظم شئر کرنے کا بہت شکریہ
    اتنی تلخی ہمارے حیدرآباد کے ایک جواں سال شاعر کے قلم میں بھی ہے ، کبھی فرصت دستیاب ہو تو ضرور شئر کروں گا۔

    ReplyDelete
  4. شکریہ آپ سب کا۔
    جعفر، میری بیوی ایسی چیزوں کا برا نہیں مانتی کہ نو سالوں میں وہ عادی ہو چکی ہے :)۔
    امید: مجھے افسوس ہے کہ آپ کو کوفت اٹھانا پڑی، دراصل بلاگ سپاٹ پر اردو سپورٹ نہیں ہے، اور اردو لکھنے کیلیے فونیٹک کی بورڈ وغیرہ کی ضرورت رہتی ہے، کاش کوئی ان مسائل کو حل کر دے۔
    حیدرآبادی، شکریہ برادرم، مجھے انتظار رہے گا شاعری کا، ضرور پڑھونگا۔

    ReplyDelete
  5. aaj ap kay blog pay shayad pehli bar ana hoa aur yeh dekh kay khushi hoi kay MashaAllah urdu blogs may ek aur accha blog dekhnay ko milla. keep it up. :-)

    ReplyDelete
  6. مخاطب کو متعلق میں بھی ایک تکا ماروں؟
    ایم کیو ایم
    =))
    جعفر کی بات بہت وزنی ہے
    اور میرے علم میں اضافے کا سسب بھی

    ReplyDelete
  7. شکریہ رپوڑٹر صاحب بلاگ پر تشریف لانے اور اسے پسند کرنے کیلیے۔
    ڈفر بھائی یہی شاعر کا کمال ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ایک تجربے کو آفاقی رنگ دے سکتا ہے بقولِ غالب
    دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اُس نے کہا
    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    ReplyDelete
  8. وارث صاحب، کیا یہ آزاد نظم ہے؟
    کیا آپ انگریزی لفظ
    Share
    کا اردو ترمجہ کر دیں گے۔ اس وقت ہمارے ذہن میں نہیں آ رہا۔

    ReplyDelete
  9. جی افضل صاحب، یہ آزاد نظم ہی ہے اور باقاعدہ نظم ہے یعنی وزن میں ہے جیسے کہ آزاد نظم ہوتی ہے۔ شیئر کا ترجمہ، حصہ، شراکت داری وغیرہ ہو سکتا ہے ویسے مجھے لفظ شیئر استعمال کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اب یہ اردو کا حصہ ہی ہے۔

    ReplyDelete