غالب کی ایک مثنوی 'قادر نامہ' ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کے بعد 'نسخۂ مہر' سے غالب کی ایک اور مثنوی لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی ویب پر 'غیر مطبوعہ' ہے۔
تعارف
'پنج آہنگ' غالب کی فارسی نثر کی کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس میں غالب نے القاب و آداب، لغاتِ فارسی، اشعارِ مکتوبی، تقاریظ اور مکاتیب وغیرہ لکھے ہیں۔ یہ کتاب سب سے پہلے اگست 1849ء میں شاہی قلعے کے مطبع میں شائع ہوئی اور اس کتاب کی اشاعت سے پہلے غالب نے اسکا ایک منظوم اشتہار مثنوی کی صورت میں لکھا جو اخبار میں شائع ہوا۔
مولانا غلام رسول مہر مثنوی کے تعارف میں رقم طراز ہیں:
"پنج آہنگ" کا منظوم اشتہار بھی ایک نادر چیز ہے، یہ مثنوی میں نے سب سے پہلے علی گڑھ کالج میگزین کے "غالب نمبر" (حصہ آثارِ غالب مرتبہ قاضی عبدالودود صاحب) میں دیکھی تھی۔
مثنوی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب پنج آہنگ شاہی مطبع میں زیرِ طبع تھی اور مطبع حکیم احسن اللہ خان کے اہتمام میں تھا۔ اشتہار حکیم غلام نجف خاں کی طرف سے تھا جیسا کہ آخر میں واضح کر دیا گیا ہے۔ عرشی صاحب کے بیان کے مطابق 'اسعد الاخبار' آگرہ میں چھپی تھی۔"
Mirza Ghalib, مرزا غالب |
مثنوی "اشتہار پنج آہنگ" از مرزا اسد اللہ خان غالب
مژدہ اے رہروانِ راہِ سخن
پایہ سنجانِ دستگانِ سخن
طے کرو راہِ شوق زود ازود
آن پہنچی ہے منزلِ مقصود
پاس ہے اب سوادِ اعظمِ نثر
دیکھیے چل کے نظمِ عالمِ نثر
سب کو اس کا سواد ارزانی
چشمِ بینش ہو جس سے نورانی
یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا
جلوۂ مدّعا نظر آیا
ہاں یہی شاہراہِ دہلی ہے
مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے
منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ
گل و ریحان و لالہ رنگا رنگ
ہے یہ وہ گلشنِ ہمیشہ بہار
بارور جس کا سرو، گُل بے خار
نہیں اس کا جواب عالم میں
نہیں ایسی کتاب عالم میں
اس سے اندازِ شوکتِ تحریر
اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر
مرحبا طرزِ نغز گفتاری
حبَّذا رسم و راہِ نَثّاری
نثرِ مدحت سراے ابراہیم (1)
ہے مقرّر جواب، پئے تعلیم
اس کے فقروں میں کون آتا ہے؟
کیا کہیں کیا وہ راگ گاتا ہے
تین نثروں سے کام کیا نکلے (2)
ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے
ورزشِ قصّۂ کہن کب تک؟
داستانِ شہِ دکن کب تک؟ (3)
تا کجا درسِ نثر ہائے کہن
تازہ کرتا ہے دل کو تازہ سخن
تھے ظہوری و عرفی و طالب
اپنے اپنے زمانے میں غالب
نہ ظہوری ہے اب، نہ طالب ہے
اسد اللہ خانِ غالب ہے
قول حافظ کا ہے بجا اے دوست
"ہر کرا پنج روز نوبتِ اوست"
کل وہ سرگرمِ خود نمائی تھے
شمعِ بزمِ سخن سرائی تھے
آج یہ قدر دانِ معنی ہے
بادشاہِ جہانِ معنی ہے (4)
نثر اس کی، ہے کارنامۂ راز
نظم اس کی، نگار نامۂ راز
دیکھو اس دفترِ معانی کو
سیکھو آئینِ نکتہ دانی کو
اس سے جو کوئی بہرہ ور ہوگا
سینہ گنجینۂ گہر ہوگا
ہو سخن کی جسے طلب گاری
کرے اس نسخے کی خریداری
آج جو دیدہ ور کرے درخواست
تین بھیجے روپے وہ بے کم و کاست
منطبع جب کہ ہو چکے گی کتاب
زرِ قیمت کا ہوگا اور حساب
چار سے پھر نہ ہوگی کم قیمت
اس سے لیویں گے کم نہ ہم قیمت (5)
جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے
احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے
وہ بہارِ ریاضِ مہر و وفا
جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما
میں جو ہوں درپئے حصولِ شرف
نام عاصی کا ہے غلامِ نجف
ہے یہ القصّہ حاصلِ تحریر
کہ نہ ارسالِ زر میں ہو تاخیر
چشمۂ انطباع جاری ہے
ابتدائے ورق شماری ہے
حواشی از مولانا غلام رسول مہر
1- ابراہیم عادل شاہ فرمانروائے بیجا پور اور اسکا مدحت سرا ظہوری تھا جس نے ابراہیم کی مدح میں 'سہ نثر' لکھی۔ وہی نثر اس زمانے میں اور خود ہمارے زمانے میں پڑھائی جاتی تھی۔
2- سہ نثر
3- ابراہیم بادشاہ بیجا پور
4- یعنی ایک زمانے میں ظہوری، عرفی اور طالب سرگرمِ خود نمائی تھے، اب غالب جہانِ معنی کا بادشاہ ہے۔
5- مطلب یہ کہ دورانِ انطباع میں 'پنج آہنگ' کی قیمت تین روپے رکھی گئی تھی اور بعدِ انطباع چار روپے کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس میں کمی کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بادشاہی مطبع میں کتابوں کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ دوسرے مطبعوں میں تمام کتابیں نسبتاً ارزاں ملتی تھیں، پھر منشی نول کشور نے تو ارزانی کی حد کر دی کہ بڑی بڑی اور ضخیم کتابیں بہت کم قیمت پر بازار میں پہنچا دیں۔ کتاب حکیم نجف خاں نے چھاپی تھی اور شاہی مطبع حکیم احسن اللہ خان کے زیرِ اہتمام تھا۔
بہت ہی نایاب جناب۔۔ بہت بہت شکریہ
ReplyDeleteبہت شکریہ راشد صاحب، نوازش۔
ReplyDelete