Dec 19, 2009

آتش پارے از سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو سا بدنام مصنف بھی شاید ہی کوئی ہوگا، ان کا نام سامنے آتے ہی بہت سے 'ثقہ' حضرات ناک بُھوں چڑھا کر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں اور بہت سے "مسخرے" ذومعنی ہنسی ہنسنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اردو ادب کا شاید ہی کوئی سنجیدہ قاری ہوگا جو منٹو کے فن کا معترف نہ ہو۔
منٹو کی جو کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، اسکا تعارف اسکے نام میں ہی پوشیدہ ہے۔" آتش پارے" میں منٹو کی جوانی کی تحریریں ہیں، وہ تحریریں جو منٹو کی نمائندہ تحریریں کبھی بھی نہ بن سکیں بلکہ بہت سوں کو تو یہ علم بھی نہ ہوگا کہ منٹو اس طرح کی حریتِ فکر کا مجاہد بھی تھا۔
منٹو مرحوم اس کتاب کے یک سطری دیباچے میں لکھتے ہیں۔
"یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں، ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔"
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو, Afsany, افسانے
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو
افسوس کہ یہ چنگاریاں کبھی بھی شعلے نہ بن سکیں بلکہ منٹو کے ساتھ ہی راکھ میں مل گئیں، اس راکھ کو 'تبرک' کے طور پر آج سے دو سوا دو سال پہلے ویب کے 'برقی سرد خانے' میں محفوظ کیا تھا وہی آج اپنے بلاگ پر بھی لکھ رہا ہوں۔
اس جگر سوختہ کتاب میں ذیل کے آٹھ افسانے ہیں۔
1- خونی تُھوک
2- انقلاب پسند
3- جی آیا صاحب
4- ماہی گیر
5- تماشا
6- طاقت کا امتحان
7- دیوانہ شاعر
8- چوری

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھیے۔

متعلقہ تحاریر : اردو نثر, افسانے, سعادت حسن منٹو

3 comments:

  1. سعادت حسن منٹو صاحب کیا تھے اور کیا نہیں تھے یہ میں نہیں بتا سکتا لیکن میں نے اپنے لڑکپن میں اُنہیں اور ان کی رہائش گاہ کو دیکھا ہے ۔ اُن کا گھر ہمارے گھر سے آدھے میل کے فاصلے پر تھا اور اس کے سامنے سے میرا گذر روز کا معمول تھا ۔ جو باتیں میں نے ان کے محلے داروں اور ایک ان کے دوست سے سُنی تھیں وہ کچھ اچھی نہ تھیں ۔ مختصر یہ کہ جو کماتے اپنے نشے کی بھینٹ چڑھا دیتے ۔ گھر میں چولہا جلا کہ نہیں جلا اس کا کم از کم عملی طور پر اُنہیں کبھی خیال نہ آیا ۔ ان کی صابر بیوی نے کس حال میں زندگی گذاری مرنے سے قبل اس پر سے بھی پردہ اُٹھا جاتے تو سمجھا جاتا کہ واقعی سچے آدمی تھے اور برائی کو نشر کرتے تھے

    ReplyDelete
  2. ہم نے تو یہی سن رکھا ہے کہ فنکار تب تک فنکار نہیں بنتا جب تک تھوڑا نشہ نہ کر لے. مہندی حسن افیم کھاتے تھے شراب پیتے تھے. ترقی پسند شاعروں کے بارے میں اکثر مشہور ہے کہ شرابی ہوتے ہیں. منٹو صاحب کو بھی نشے کی لت رہی ہو گی مگر وارث صاحب کی یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کے افسانوں کو وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھا. انہیں وہ مقام اسلیے نہیں ملا کیونکہ ان کے اکثر افسانے گھٹیا موضوع پر لکھے گئے ہیں. کسی میں کنجری کا ذکر ہے، کسی میں حسینہ کے جسم پر بالوں کی کشش کا وغیرہ وغیرہ.
    اجمل صاحب اچھا ہو اگر آپ منٹو صاحب کی ذاتی زندگی پر مزید کچھ لکھیں.

    ReplyDelete
  3. بھوپال صاحب اور افضل صاحب، جو لوگ 'پبلک فگر' ہوتے ہیں انکی انتہائی ذاتی اور نجی زندگی میں قاضی آ ہی جاتے ہیں، ورنہ ہم جیسوں کو ہم جیسے لوگوں کی بیویوں کے حالات جانے کی قطعاً فکر نہیں ہوتی، خیر بات جملۂ معترضہ سے شروع کرنے پر معذرت چاہتا ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ منٹو کے مرنے کے بعد انکی بیوی صفیہ بیگم اور ان کی بچیوں کے بے شمار انٹرویوز چھپے اور انکی کئی ایک تحاریر منصۂ شہود پر آئیں، ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے شوہر اور اپنے باپ سے سوا دنیا میں کوئی اور عزیز نہ تھا۔

    جہاں تک نشے کی بات ہے تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ بھی بھگتے ہیں، اب فنونِ لطیفہ سے ہی تعلق رکھنے والے زیادہ تر ایسا کیوں کرتے ہیں تو یہ ایک اچھا موضوع ہے، اس پر تو ایک مستند اور ثقہ قسم کی پی ایچ ڈی لکھی جا سکتی ہے یا کسی پروفیسر کے حلوے مانڈے کا مستقل انتظام ہو سکتا ہے۔

    رہا منٹو کا موضوع، تو میں نے عرض یہ کیا تھا کہ جس موضوع پر منٹو کی یہ کتاب 'آتش پارے' ہے اس کو پذیرائی نہیں ملی وگرنہ منٹو سے زیادہ پذیرائی کسے ملی ہے، عوام اور حکومت دونوں کی عدالت میں۔

    گھٹیا موضوع خوب کہا آپ نے افضل صاحب، اپنے ناسوروں کا جائزہ لینا اور ان کو اطباء و حکماء کے سامنے کھول کر رکھنا کیا واقعی گھٹیا ہے؟ ڈی ایچ لارنس نے برطانیہ کی عدالت کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ کیا کوئی، کسی ایک بھی طوائف کا نام بتا سکتا ہے جس نے کوئی کتاب پڑھ کر یہ پیشہ شروع کیا ہو؟ جسکی ساری زندگی ہی ایک گالی ہے اس کو کسی گالی سے کیا فرق پڑے گا، سوچنا تو انہیں چاہیئے جو معاشرے کے ٹھیکیدار ہیں جو کسی بھی جگہ کسی بھی بد دیانتی اور بد عنوانی پر احتجاج کرتے ہیں چاہے وہ معاشی ہو یا سیاسی، مذہبی ہو یا علمی لیکن جب اخلاقی بددیانتی کا ذکر آئے تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

    ReplyDelete