Oct 17, 2011

نوائے سروش - ۳

ایک روز خواجہ ہمام الدین تبریزی، تبریز کے ایک حمام میں غسل کیلیے گئے تو اتفاقاً وہاں شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بھی موجود تھے۔ خواجہ ہمام نے غسل کی ابتدا کی تو شیخ سعدی نے بوجۂ ادب لوٹے سے انکے سر پر پانی ڈالنا شروع کردیا۔ خواجہ ہمام نے استفسار کیا۔

میاں درویش کہاں سے آ رہے ہو۔

شیخ سعدی نے عرض کی۔ قبلہ شیراز سے حاضر ہوا ہوں۔

خواجہ ہمام نے کہا، یہ عجیب بات ہے کہ میرے شہر ﴿تبریز﴾ میں شیرازی کتوں سے بھی زیادہ ہیں ( یعنی تعداد میں)۔

شیخ سعدی نے مسکرا کر کہا۔ مگر میرے شہر میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ شیراز میں تبریزی کتوں سے بھی کم ہیں ( یعنی درجہ میں)۔
--------

ایک روز کا واقعہ ہے، مرزا غالب اور انکی بیگم بعد از موت عاقبت اور مغفرت کے مسائل پر بحث کر رہے تھے، مرزا کی بیگم بولیں۔

"روزہ رکھنا تو دور کی بات ہے آپ نے تو کبھی نماز بھی نہیں پڑھی اور عاقبت سنوارنے کے لئے کم از کم نماز روزہ کی پابندی ہے، ادائیگی اختیار کرنی ہی پڑتی ہے۔"

مرزا نے جواب دیا۔ "آپ بلا شبہ درست فرما رہی ہیں لیکن یہ بھی دیکھ لینا کہ آپ سے ہمارا حشر اچھا ہی ہوگا۔"

بیگم بولیں۔ "وہ کیونکر؟ کچھ ہمیں بھی تو بتائیے۔"

"بھئی بات تو بالکل سیدھی ہے۔" مرزا نے کہا۔ "آپ تو انہی نیلے تہبند والوں کے ساتھ ہونگی جن کے تہبند کے پلو میں مسواک بندھی ہوگی، ہاتھ میں ایک ٹونٹی دار بدھنی ہوگی اور انہوں نے اپنے سر بھی منڈوا رکھے ہونگے۔ آپ کے برعکس ہمارا حشر یہ ہوگا کہ ہماری سنگت بڑے بڑے غیر فانی، شہرت یافتہ بادشاہوں کے ساتھ ہوگی۔ مثلاً ہم فرعون، نمرود اور شداد کے ساتھ ہونگے۔ ہم اپنی مونچھوں کو بل دے کر اکڑتے ہوئے زمین پر قدم دھریں گے تو ہماری دائیں اور بائیں اطراف چار چار فرشتے ہمارے جلو میں چل رہے ہونگے۔"
--------

میر تقی میر کی عادت تھی کہ جب گھر سے باہر جاتے تو تمام دروازے کھلے چھوڑ دیتے تھے اور جب گھر واپس آتے تو تمام دروازے بند کر لیتے تھے۔ ایک دن کسی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا۔

"میں ہی تو اس گھر کی واحد دولت ہوں۔"
--------

ایک محفل میں کچھ شاعر بیخود دہلوی اور سائل دہلوی کا ذکر کر رہے تھے۔ ایک شاعر نے شعر سنائے جس میں دونوں کے تخلص نظم ہوئے تھے۔ وہاں حیدر دہلوی بھی موجود تھے۔ شعر سن کر کہنے لگے ۔

"اس شعر میں سائل اور بیخود تخلص صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو۔"

کسی نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔؟ حیدر نے وہیں برجستہ یہ شعر کہہ کر سب کو حیران کر دیا:

پڑا ہوں میکدے کے در پہ اس انداز سے حیدر
کوئی سمجھا کہ بے خود ہے کوئی سمجھا کہ سائل ہے
--------

ایک مشاعرے کی نظامت کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کر رہے تھے۔ جب فنا نظامی کی باری آئی تو مہندر سنگھ نے کہا کہ حضرات اب میں ملک کے چوٹی کے شاعر حضرت فنا نظامی کو زحمت کلام دے رہا یہوں۔ فنا صاحب مائک پر آئے سحر کی پگڑی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے: حضور چوٹی کے شاعر تو آپ ہیں میں تو داڑھی کا شاعر ہوں۔
--------

ایک مولوی صاحب نے سر سید کو خط لکھا کہ معاش کی طرف سے بہت تنگ ہوں، عربی جانتا ہوں، انگریزی سے ناواقف ہوں، کسی ریاست میں میری سفارش کر دیں۔

سر سید نے جواب دیا کہ "سفارش کی میری عادت نہیں اور معاش کی تنگی کا آسان حل یہ ہے کہ میری تفسیرِ قرآن کا رد لکھ کر چھپوائیں، کتاب خوب بِکے گی اور آپ کی تنگی دور ہو جائے گی۔"
--------

سہارن پور میں عیدن ایک گانے والی تھی، بڑی باذوق، سخن فہم اور سیلقہ شعار، شہر کے اکثر ذی علم اور معززین اسکے ہاں چلے جایا کرتے تھے، ایک دن مولانا فیض الحسن سہارنپوری بھی پہنچے، وہ پرانے زمانے کی عورت نئی تہذیب سے ناآشنا، بیٹھی نہایت سادگی سے چرخہ کات رہی تھی۔

مولانا اس کو اس ہیت میں دیکتھے ہی واپس لوٹے، اس نے آواز دی، "مولانا آیئے، تشریف لایئے، واپس کیوں چلے؟"

مولانا یہ فرما کر چل دیئے کہ "ایسی تو اپنے گھر بھی چھوڑ آئے ہیں۔"
--------

متعلقہ تحاریر : طنز و مزاح, نوائے سروش

0 تبصرے:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment

اس بلاگ پر اردو میں لکھے گئے تبصروں کو دل و جان سے پسند کیا جاتا ہے، اگر آپ کے پاس اردو لکھنے کیلیے فونیٹک یا کوئی دیگر اردو 'کی بورڈ' نہیں ہے تو آپ اردو میں تبصرہ لکھنے کیلیے ذیل کے اردو ایڈیٹر (سبز رنگ کے خانے) میں تبصرہ لکھ کر اسے نیچے والے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں، اردو ایڈیٹر لوڈ ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے جس کیلیے آپ سے معذرت۔ اردو ایڈیٹر بشکریہ نبیل حسن نقوی۔