Oct 8, 2011

نوائے سروش - ۲

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو اپنی بیٹی زیب النساء کیلئے استاد درکار تھا۔ یہ خبر سن کر ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بیسیوں قادر الکلام شاعر دہلی آگئے کہ شاید قسمت یاوری کرے اور وہ شہزادی کے استاد مقرر کر دیئے جائیں۔

ان ایام میں دہلی میں اس زمانہ کے نامور شاعر بھان چندر برہمن اور میر ناصر علی سرہندی بھی موجود تھے۔ نواب ذوالفقار علی خان، ناظمِ سرہند کی سفارش پر برہمن اور میر ناصر کو شاہی محل میں اورنگزیب کے روبرو پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے برہمن کو اپنا کلام سنانے کا حکم ہوا، برہمن نے تعمیلِ حکم میں جو غزل پڑھی، اسکا مقطع تھا۔

مرا دلیست بکفر آشنا کہ چندیں بار
بکعبہ بُردم و بازم برہمن آوردم

(میرا دل اسقدر کفر آشنا ہے کہ میں جتنی بار بھی کعبہ گیا برہمن کا برہمن ہی واپس آیا۔)

گو یہ محض شاعرانہ خیال تھا اور تخلص کی رعایت کے تحت کہا گیا تھا لیکن عالمگیر انتہائی پابند شرع اور سخت گیر بادشاہ تھا، اسکی تیوری چڑھ گئی اور وہ برہمن کی طرف سے منہ پھیر کے بیٹھ گیا۔

میر ناصر علی نے اس صورتِ حال پر قابو پانے کیلئے اٹھ کر عرض کی کہ جہاں پناہ اگر برہمن مکہ جانے کے باوجود برہمن ہی رہتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، شیخ سعدی بھی تو یہی کہہ گئے ہیں۔۔

خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد

(عیسٰی کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے وہ جب واپس آئے گا، گدھے کا گدھا ہی رہے گا۔)

عالمگیر یہ شعر سن کر خوش ہوگیا اور برہمن کو معاف کردیا۔
--------

جوش ملیح آبادی ایک دفعہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے، ملاقاتی کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ علامہ اقبال کے سامنے قرآن پاک رکھا ہے اور وہ زار و قطار رو رہے ہیں۔

یہ دیکھ کر جوش نے بڑی معصومیت سے کہا۔

"علامہ صاحب، کیا کوئی وکیل قانون کی کتاب پڑھتے ہوئے بھی روتا ہے۔"

یہ سن کر علامہ ہنس پڑے۔
--------

اخبار "وطن" کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خان کے علامہ اقبال سے دوستانہ تعلقات تھے، اور وہ علامہ کی اس دور کی قیام گاہ واقع انار کلی بازار لاہور اکثر حاضر ہوا کرتے تھے، اس دور میں انارکلی بازار میں گانے والیاں آباد تھیں۔ انہی دنوں میونسپل کمیٹی نے گانے والیوں کو انارکلی سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کر دیا۔

ان ایام میں جب بھی مولوی صاحب، علامہ سے ملاقات کے لئے آئے، اتفاقاً ہر بار یہی پتہ چلا کہ علامہ گھر پر تشریف نہیں رکھتے، باہر گئے ہوئے ہیں۔

ایک روز مولوی انشاء اللہ پہنچے تو علامہ گھر پر موجود تھے، مولوی صاحب نے ازراہِ مذاق کہا۔

"ڈاکٹر صاحب جب سے گانے والیاں انارکلی سے دوسری جگہ منتقل ہوئی ہیں، آپ کا دل بھی اپنے گھر میں نہیں لگتا۔"

علامہ نے فوراً جواب دیا۔

"مولوی صاحب، آخر انکا کیوں نہ خیال کیا جائے، وہ بھی تو "وطن" کی بہنیں ہیں۔"
--------

غالب کی مفلسی کا زمانہ چل رہا تھا، پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی اور قرض خواہ مزید قرض دینے سے انکاری۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک شام انکے پاس پینے کیلیے بھی پیسے نہ تھے، مرزا نے سنِ شعور کے بعد شاید ہی کوئی شام مے کے بغیر گزاری ہو، سو وہ شام ان کیلیے عجیب قیامت تھی۔

مغرب کی اذان کے ساتھ ہی مرزا اٹھے اور مسجد جا پہنچے کہ آج نماز ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اتنی دیر میں انکے کے دوست کو خبر ہوگئی کہ مرزا آج "پیاسے" ہیں اس نے جھٹ بوتل کا انتظام کیا اور مسجد کے باہر پہنچ کر وہیں سے مرزا کو بوتل دکھا دی۔

مرزا، وضو کر چکے تھے، بوتل کا دیکھنا تھا کہ فورا جوتے پہن مسجد سے باہر نکلنے لگے۔ مسجد میں موجود ایک شناسا نے کہا، مرزا ابھی نماز پڑھی نہیں اور واپس جانے لگے ہو

مرزا نے کہا، قبلہ جس مقصد کیلیے نماز پڑھنے آیا تھا وہ تو نماز پڑھنے سے پہلے ہی پورا ہو گیا ہے اب نماز پڑھ کر کیا کروں گا۔
--------

سعادت حسن منٹو کے ایک دوست نے ایک دن ان س کہا۔

"منٹو صاحب، پچھلی بار جب آپ سے ملاقات ہوئی تھی تو آپ سے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ آپ نے مے نوشی سے توبہ کرلی ہے، لیکن آج مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آج آپ نے پھر پی ہوئی ہے۔"

منٹو نے جواب دیا۔

"بھئی تم درست کہہ رہے ہو، اُس دن اور آج کے دن میں فرق صرف یہ ہے کہ اُس دن تم خوش تھے اور آج میں خوش ہوں۔"
--------

آغا حشر کاشمیری کے شناساؤں میں ایک ایسے مولوی صاحب بھی تھے جنکی فارسی دانی کو ایرانی بھی تسلیم کرتے تھے، لیکن یہ اتفاق تھا کہ مولوی صاحب بیکاری کے ہاتھوں سخت پریشان تھے، اچانک ایک روز آغا صاحب کو پتہ چلا کہ ایک انگریز افسر کو فارسی سیکھنے کیلئے اتالیق درکار ہے۔ آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز کے ہاں بھجوا دیا، صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔

"ویل مولوی صاحب ہم کو پتہ چلتا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔"

مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ "حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔"

صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب کو تو خوش اخلاقی سے پیش آتے ہوئے رخصت کر دیا، لیکن اس رئیس سے یہ شکایت کی انہوں نے سوچے سمجھے بغیر ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کیلئے بھیج دیا جو فارسی کا ایک لفظ تک نہیں جانتا تھا۔
--------

متعلقہ تحاریر : طنز و مزاح, نوائے سروش

5 comments:

  1. واہ واہ!

    بہت ہی خوب وارث بھائی۔ ایسے پر بہار اور لطیف قصے پڑھ کر مزہ ہی آگیا۔

    بہت ہی خوب سلسلہ شروع کیا ہے یہ آپ نے۔

    ReplyDelete
  2. بہت اعلیٰ ۔پڑھ کر مزا آیا۔

    ReplyDelete
  3. شکریہ احمد صاحب اور درویش خُراسانی صاحب۔

    ReplyDelete
  4. زبردست۔۔۔ مزہ آ گیا پڑھ کر جناب۔۔۔ مزاح ہو تو ایسا ہو۔۔۔

    ReplyDelete
  5. نوازش آپ کی عمران اقبال صاحب۔

    ReplyDelete