مولانا ابو الکلام آزاد نے "غبارِ خاطر" میں امیر الامرا شریف خان شیرازی کا یہ شعر لکھا ہے:
بگذر مسیح، از سرِ ما کُشتگانِ عشق
یک زندہ کردنِ تو بصد خوں برابرست
(اے مسیح، ہم عشق کے ہلاک شدگان کر سر پر سے گذر جا کہ تیرا ایک مردہ کو زندہ کرنا، (کسی کے ارمانوں کے) سو خون کرنے کے برابر ہے۔
مالک رام دہلوی نے "غبارِ خاطر" کے حواشی میں مغل شہنشاہ جہانگیر (جو کہ شاعر بھی تھا) کی کتاب "توزکِ جہانگیری" کے حوالے سے اس شعر کے متعلق مندرجہ ذیل واقع لکھا ہے۔ جو میں اپنے ترجمے کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔
"جہانگیر لکھتا ہے کہ جب یہ شعر میرے سامنے پڑھا گیا تو بے اختیار میری زبان پر یہ شعر آ گیا:
از من متاب رُخ کہ نِیَم بے تو یک نَفَس
یک دل شکستنِ تو بصد خوں برابرست
(میری طرف سے منہ مت پھیر کہ تیرے بغیر میں ایک لحظہ بھی نہیں ہوں، تیرا ایک دل کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے۔ )
اس پر دربار کے سب موزوں طبع نے ایک ایک شعر کہہ کر پیش کیا، ان میں ملّا علی احمد مُہرکَن کا یہ شعر بھی تھا:
اے محتسب ز گریۂ پیرِ مغاں بترس
یک خم شکستنِ تو بصد خوں برابرست"
(اے محتسب، پیرِ مغاں کی آہ و زاری پر ترس کھا کہ تیرا ایک جام کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے)۔
------
میانِ عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
تو خود حجابِ خودی حافظ از میاں بر خیز
(حافظ شیرازی)
عاشق اور معشوق کے درمیان کوئی بھی چیز قطعاً حائل نہیں ہے، اے حافظ تو خود ہی اپنا حجاب ہے سو درمیان سے اٹھ جا یعنی اپنی خودی کو ختم کر دے تا کہ عاشق اور معشوق کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے۔
------
وقت است کہ بکشائم مے خانۂ رومی باز
پیرانِ حرَم دیدم در صحنِ کلیسا مست
(اقبال)
(اب) وقت ہے کہ میں رومی کا میخانہ دوبارہ کھولوں (کیونکہ) میں نے حرم کے پیروں کو کلیسا کے صحن میں مست دیکھا ہے۔
رُوئے نِکو معالجۂ عمرِ کوتہ ست
ایں نسخہ از علاجِ مسیحا نوشتہ ایم
(نظیری نیشاپوری)
کسی نیک آدمی کا چہرہ (دیدار) عمرِ کوتاہ کا علاج ہے، یہ نسخہ ہم نے مسیحا کے علاج (نسخوں) میں سے لکھا ہے۔
------
ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی
(صائب تبریزی)
یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
------
موجیم کہ آسودگیِ ما عدمِ ماست
ما زندہ بہ آنیم کہ آرام نگیریم
(ابو طالب کلیم کاشانی)
ہم موج (کی طرح) ہیں کہ ہمارا سکون ہمارا عدم (مٹ جانا) ہے، ہم اسی وجہ سے زندہ ہیں کہ آرام (سکون) نہیں کرتے۔ یعنی زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔
------
شعلہ چکد، غم کرا، گل شگفد، مزد کو
شمعِ شبستانیم، بادِ سحر گاہیم
(اگر مجھ سے) شعلے ٹپکتے ہیں تو اسکا کسے غم ہے؟ (اور اگر میری وجہ سے) پھول کھلتے ہیں تو اسکا کیا صلہ؟ میں تو شبستان میں جلنی والی شمع ہوں (یا پھر) بادِ سحر ہوں۔
غالبِ نام آورم، نام و نشانم مپرس
ہم اسد اللہ ام و ہم اسد اللہیم
میں نام ور غالب ہوں، میرا نام و نشان مت پوچھو، میں اسد اللہ بھی ہوں یعنی یہ میرا نام ہے اور اسد اللہ علی ع کا ماننے والا بھی ہوں اور یہ میرا نشان ہے۔
(غالب دھلوی)
------
0 تبصرے:
Post a Comment
اس بلاگ پر اردو میں لکھے گئے تبصروں کو دل و جان سے پسند کیا جاتا ہے، اگر آپ کے پاس اردو لکھنے کیلیے فونیٹک یا کوئی دیگر اردو 'کی بورڈ' نہیں ہے تو آپ اردو میں تبصرہ لکھنے کیلیے ذیل کے اردو ایڈیٹر (سبز رنگ کے خانے) میں تبصرہ لکھ کر اسے نیچے والے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں، اردو ایڈیٹر لوڈ ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے جس کیلیے آپ سے معذرت۔ اردو ایڈیٹر بشکریہ نبیل حسن نقوی۔