مئےِ دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست
پیشِ صاحب نَظَراں حور و جَناں چیزے نیست
پرانی شراب اور جوان معشوق کوئی چیز نہیں ہے، صاحبِ نظر کے سامنے حور اور جنت کچھ بھی نہیں ہے۔
دانَشِ مغربیاں، فلسفۂ مشرقیاں
ہمہ بتخانہ و در طوفِ بتاں چیزے نیست
مغرب والوں کی (عقل و) دانش اور مشرق والوں کا فلسفہ، یہ سب بُتخانے ہیں اور بتوں کے طواف میں کچھ بھی نہیں ہے۔
(علامہ اقبال)
---
بہ سوئے کعبہ راہ بسیار است
من ز دریا روَم، تو از خشکی
(قاآنی شیرازی)
کعبہ کی طرف بہت سے راستے جاتے ہیں، میں اگر دریا کے راستے جاتا ہوں تو تُو خشکی کے (یعنی حقیقت تک پہنچنے کے کئی ایک ذرائع ہوتے ہیں)
----
ناخدا در کشتیٔ ما گر نباشد، گو مباش
ما خدا داریم، ما را ناخدا درکار نیست
(امیر خسرو دہلوی)
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کہہ دو کہ کوئی ڈر، فکر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
خموش حافظ و از جورِ یار نالہ مکُن
ترا کہ گفت کہ بر روئے خوب حیراں باش
(حافظ شیرازی)
حافظ خاموش رہ اور یار کے ظلم سے نالاں نہ ہو، تجھ سے کس نے کہا تھا کہ خوبصورت چہرے پر عاشق ہو جا۔
-----
عمریست دل بَغَفلتِ خود گریہ می کُنَد
ایں نامۂ سیہ چہ قدَر ابرِ رحمت است
(ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی)
تمام عمر، میرا دل اپنی غفلت پر آنسو بہاتا رہا، یہ میرا سیاہ اعمال نامہ کس قدر ابرِ رحمت (کی مانند) ہے۔
ما خدا داریم، ما را ناخدا درکار نیست
(امیر خسرو دہلوی)
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کہہ دو کہ کوئی ڈر، فکر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
------
خموش حافظ و از جورِ یار نالہ مکُن
ترا کہ گفت کہ بر روئے خوب حیراں باش
(حافظ شیرازی)
حافظ خاموش رہ اور یار کے ظلم سے نالاں نہ ہو، تجھ سے کس نے کہا تھا کہ خوبصورت چہرے پر عاشق ہو جا۔
-----
ملک الشعراء میرزا محمد تقی بہار (1884ء - 1951ء) کے والد میرزا محمد کاظم صبوری بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ بہار جب اٹھارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تو شاعری کے میدان میں انہیں جیسے آزادی مل گئی کہ انکے والد ہمیشہ شاعری کے معاملے میں انکی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ بہار نے اتنی مہارت سے شعر کہنے شروع کیے کہ خراسان کے علماء و فضلاء نے یقین نہ کیا کہ یہ انکے شعر ہیں بلکہ سمجھا کہ بہار اپنے والد کے اشعار اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کیلیے بہار نے فی البدیہہ مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
اسی طرح کے ایک مشاعرے میں بہار کی قابلیت جانچنے کیلیے اساتذہ نے انہیں چار لفظ 'تسبیح، چراغ، نمک اور چنار' دیکر کہا کہ رباعی کے وزن پر چار مصرعے کہو اور ان میں یہ الفاظ استعمال کرو، بہار نے چند لمحوں میں یہ رباعی پیش کر دی:
با خرقہ و تسبیح مرا دید چو یار
گفتا ز چراغِ زہد نایَد انوار
کس شہد نہ دیدہ است در کانِ نمک
کس میوہ نچیدہ است از شاخِ چنار
جب میرے یار نے مجھے خرقہ و تسبیح کے ساتھ دیکھا تو کہا کہ (یہ کیا کر رہا ہے) زہد کے چراغ سے انوار نہیں نکلتے، کیونکہ کبھی کسی نے نمک کی کان میں شہد نہیں دیکھا اور کسی نے چنار کی شاخ سے پھل نہیں حاصل کیا۔
Mohammad Taqi Bahar, ملک الشعرا محمد تقی بہار |
اسی طرح کے ایک مشاعرے میں بہار کی قابلیت جانچنے کیلیے اساتذہ نے انہیں چار لفظ 'تسبیح، چراغ، نمک اور چنار' دیکر کہا کہ رباعی کے وزن پر چار مصرعے کہو اور ان میں یہ الفاظ استعمال کرو، بہار نے چند لمحوں میں یہ رباعی پیش کر دی:
با خرقہ و تسبیح مرا دید چو یار
گفتا ز چراغِ زہد نایَد انوار
کس شہد نہ دیدہ است در کانِ نمک
کس میوہ نچیدہ است از شاخِ چنار
جب میرے یار نے مجھے خرقہ و تسبیح کے ساتھ دیکھا تو کہا کہ (یہ کیا کر رہا ہے) زہد کے چراغ سے انوار نہیں نکلتے، کیونکہ کبھی کسی نے نمک کی کان میں شہد نہیں دیکھا اور کسی نے چنار کی شاخ سے پھل نہیں حاصل کیا۔
------
تا چشمِ تو ریخت خونِ عشّاق
زلفِ تو گرفت رنگِ ماتم
(خاقانی شروانی)
چونکہ تیری آنکھوں نے عشاق کا خون بہایا ہے (اسلیے) تیری زلفوں نے رنگِ ماتم پکڑا ہوا ہے (وہ سیاہ رنگ کی ہیں)۔
حسنِ تعلیل کی ایک خوبصورت مثال، بالوں کا سیاہ ہونا بالوں کی ایک صفت ہے لیکن شاعر نے اس کو معطل کر کے اسکی وجہ کچھ اور ہی بتائی ہے اور کیا خوبصورت وجہ بتائی ہے
زلفِ تو گرفت رنگِ ماتم
(خاقانی شروانی)
چونکہ تیری آنکھوں نے عشاق کا خون بہایا ہے (اسلیے) تیری زلفوں نے رنگِ ماتم پکڑا ہوا ہے (وہ سیاہ رنگ کی ہیں)۔
حسنِ تعلیل کی ایک خوبصورت مثال، بالوں کا سیاہ ہونا بالوں کی ایک صفت ہے لیکن شاعر نے اس کو معطل کر کے اسکی وجہ کچھ اور ہی بتائی ہے اور کیا خوبصورت وجہ بتائی ہے
-----
عمریست دل بَغَفلتِ خود گریہ می کُنَد
ایں نامۂ سیہ چہ قدَر ابرِ رحمت است
(ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی)
تمام عمر، میرا دل اپنی غفلت پر آنسو بہاتا رہا، یہ میرا سیاہ اعمال نامہ کس قدر ابرِ رحمت (کی مانند) ہے۔
--------
متعلقہ تحاریر : فارسی شاعری
ReplyDeleteگر بتُو اُفتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رُو برُو
شرحِ دہم گَمِ تُرا نُکتہ بہ نُکتہ مُو بہ مُو
اگر تُجھ پر میری نظر کچھ اِسطرح پڑے کہ تُو بالکل میرے سامنے ہو اور تیرا چہرہ میرے چہرے کے سامنے ہو میں تیرے غَمِ عِشق کی شرح ایک ایک گہری بات رمز اور نُکتے کے ساتھ بیان کروں۔۔۔
از پئے دِیدن رُخت ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بخانہ،در بدر،کوچہ بکُوچہ،کُو بکُو
تیرا چہرہ دیکھنے کے لئے میں صُبح کی نرم اور لطیف ہوا کی مانند چلتی پِھروں اور میں گھر گھر،در در،کوچہ بکوچہ،گلی گلی تجھے دُھونڈوں اور تیری تلاش میں کوئی جگہ نہ چھوڑوں۔۔۔
می رود از فراقِ تو خونِ دِل از دو دیدہ ام
دجلہ بدجلہ،یَم بہ یَم،چشمہ بہ چشمہ جُو بجُو
تیرے فِراق میں میرا خونِ دِل دونوں آنکھوں سے رواں ہے اور وہ دریا دریا،سمندر سمندر،چشمہ چشمہ،اور ندہ ندی بہہ رہا ہے۔۔۔
مہرِ تُڑا دِلِ حَزیں بافتہ بر قُماشِ جاں
رِشتہ بہ رِشتہ نَخ بہ نَخ تار بہ تار پُو بہ پُو
میرے غَمزدہ دِل نے تیری محبت کو جاں کے قماش پر بُن لیا ہے ،دھاگہ دھاگہ،نَخ نَخ،تار تار اور تانہ بانہ خُوب بنا کر بُن لیا ہے۔۔۔
دَر دِل خویش طاہرہ گشت ندیدہ جُز تُرا
صفحہ بہ صفحہ،لا بہ لا،پردہ بہ پردہ تُو بہ تُو
طاہرہ نے اپنے دِل کے اندر نظر ڈالی مگر اِسے دِل کے ہر صفحے ہر گوشے ہر پردے اور ہر تہہ پر تیرے سِوا کچھ نظر نہ آیا۔۔۔
قرة العین طاہرہ
وارث بھائی پہلے شعر کے دوجے مِصرع میں "شرح دہم غَمِ تُرا " ہے ٹائپنگ کی غلطی پر معذرت خواہ ہوں
ReplyDeleteنوازش آپ کی ملک صاحب، بہت شکریہ
ReplyDeletethanks a lot mr and my brother mohamad wares
ReplyDeleteشکریہ برادرم
Delete