شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلش
اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی
دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
Ibn-e-Insha, ابنِ انشا |
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
ابنِ انشا
----
قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے سحر میں حر، خبر میں بر، قدر میں در، اثر میں ثر، بر وغیرہ۔
ردیف - نہیں ہوتی
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
علامتی نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی
شام غم کی - فاعلاتن - 2212
سحر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22
یا ہمی کو - فاعلاتن - 2212
خبر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22
-----
متعلقہ تحاریر : ابنِ انشا,
اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر خفیف,
تقطیع
ہمیں پتہ ہی نہ تھا کہ یہ ابن انشا کی غزل ہے۔
ReplyDeleteغلام علی کی آواز میں اکثر سنتے ہیں
بہت عمدہ انتخاب حسب معمول
اور میں نے یہ غزل آج تک سنی نہیں تھی، آپ نے بتایا تو اب ڈھونڈ لونگا۔
Deleteواہ واہ!
ReplyDeleteیہ غزل لاجواب ہے، مجھے شروع سے ہی بہت پسند ہے۔
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی دربدر نہیں ہوتی
کیا کہنے ۔
شکریہ اس خوبصورت شراکت کا۔
شکریہ احمد صاحب
Deleteفاعلاتن پر کچھ جملہ دے دیں بہت مہربانی ہوگی ہ
ReplyDelete