نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے
مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے
پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہ گذار
ذرّے جو خاک سے اٹھّے، وہ صنم خانہ بنے
موجِ صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے
کارفرما ہے فقط حُسن کا نیرنگِ کمال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی |
چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو؟
ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے
خاک پروانے کی برباد نہ کر بادِ صبا
عین ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے
جرعہٴ مے تری مستی کی ادا ہو جائے
موجِ صہبا تری ہر لغزشِ مستانہ بنے
اُس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے
رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے
اصغر گونڈوی
-----
قافیہ - آنہ یعنی نہ اور اسے پہلے الف ساکن اور زبر کی آواز جیسے پیمانہ میں مانہ، مستانہ میں تانہ، فرزانہ میں زانہ، دیوانہ میں وانہ وغیرہ۔
ردیف - بنے
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے
نہ یہ شیشہ - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ ساغر - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ پیما - فَعِلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211
جانِ میخا - فاعلاتن - 2212
نہ تری نر - فَعِلاتن - 2211
گَسِ مستا - فعلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211
-----
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
اصغر گونڈوی,
بحر رمل,
بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع,
تقطیع
رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
ReplyDeleteجس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے
واہ
میں اصغر گونڈوی صاحب کے اشعار ڈھونڈنے کی کوشش کر را تھا لیکن ملنے کو نی دے رے تھے آج آپکے بلاگ پر پڑھا، اگر انکی کوئی آنلائن کتاب کا لنک میسیر ہو تو ضرور فراہم کیجیے گا
ReplyDeleteجی آن لائن کوئی کتاب تو شاید نہ ہو، بس ادھر ادھر ان کا کلام بکھرا ہوا ہے۔ اردو محفل پر بھی کافی کلام موجود ہے۔
Deleteبہت اچھے حضور
ReplyDeleteآپ کے خیالات پڑھ کر مجھے یاد آیا ۔۔۔۔۔۔ یہ
کسی نے کیا خوب کہا ھے کہ ،، عشق میں کیسی دنا داری پیار میں کیسی مجبوری ،، بحرحال یہاں جو میں دیکھ رھا ھوں اور جو کچھ پڑھا ھے اسے سراھنے کے لیے الفاظ ،، بہت اچھے ،، کم تو ھیں مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے بڑ ھ کر کہہ بھی کیا سکتا ھوں ؟
بہت شکریہ محترم اقبال طارق صاحب، ذرّہ نوازی ہے آپ کی حضور اور بلاگ پر خوش آمدید۔
Delete