شیخ ابوسعید فضل اللہ بن ابوالخیر احمد بن محمد بن ابراہیم، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری (دسویں و گیارہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور عارف اور معروف شاعر ہیں۔ فارسی شاعری میں آپ کا مقام انتہائی بلند سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے ہی فارسی شاعری میں تصوف کا پرچار کیا اور تصوف کی تعلیمات کو شاعری کے رنگ میں پیش کیا اور شاعری میں تصوف کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی جس پر آج تک، ہزار سال گزرنے کے بعد بھی، بلند و بالا و پُر شکوہ عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔ شیخ ابوسعید ابوالخیر کو مشہور صوفی حضرت بایزید بسطامی اور منصور حلاج کی تعلیمات بہت پسند تھیں اور اپنی شاعری میں منصور کی تعریف جا بجا کی ہے۔ آپ کی شاعری کے اثرات بعد کے صوفی شعراء پر کافی گہرے ہیں جیسے شیخ فرید الدین عطار آپ کو اپنا روحانی استاد کہا کرتے تھے۔
شیخ ابوسعید، مشہور عالم ابنِ سینا کے ہم عصر تھے، ان دونوں کی ایک ملاقات بہت مشہور ہے جس میں دونوں حضرات تین دن تک تخلیے میں گفت و شنید کرتے رہے، ملاقات کے بعد ابنِ سینا کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے شیخ سے کیا حاصل کیا، انہوں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی جانتا ہوں وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں، دوسری طرف شیخ کے مریدین نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے ابنِ سینا سے کیا حاصل کیا آپ نے کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھ سکتا ہوں وہ اسے جانتا ہے۔ ایک صوفی اور ایک عالم کی ایک دوسرے کیلیے یہ کلمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
شاعری میں شیخ ابوسعید کی خاص پہچان انکی رباعیات ہیں، جو تصوف و عرفان و معرفت و حقیقت کے اسرار سے پر ہیں اور چہار دانگ شہرت حاصل کر چکی ہیں، انہی میں سے چند رباعیاں ترجمہ کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
(1)
ابوسعید ابوالخیر ایک خاکہ Abu Saeed Abul Kheir |
در حالتِ عجز دستگیرِ ھمہ کس
یا رب تو مرا توبہ دہ و عذر پذیر
اے توبہ دہ و عذر پذیرِ ھمہ کس
اے سب کے دلوں کے حال جاننے والے، ناتوانی اور عاجزی میں سب کی مدد کرنے والے، یا رب تو مجھے توبہ (کی توفیق) دے اور میرے عذر کو قبول کر، اے سب کو توبہ کو توفیق دینے والے اور سب کے عذر قبول کرنے والے۔
(2)
خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد
اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
(3)
در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا
کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
(4)
تسبیح مَلَک را و صفا رضواں را
دوزخ بد را، بہشت مر نیکاں را
دیبا جم را و قیصر و خاقاں را
جاناں ما را و جانِ ما جاناں را
تسبیح (و تمحید وتحلیل) فرشتوں کیلیے اور معصومیت و پاکیزگی رضواں (فرشتے) کیلیے ہے، دوزخ بد اور جنت نیک مردوں کیلیے ہے، دیبا (و حریر یعنی قیمتی ساز و سامان) جمشید و قیصر و خاقان (بادشاہوں) کیلیے ہے اور جاناں ہمارے لیے ہے اور ہماری جان جاناں کیلیے۔
(5)
وصلِ تو کجا و مَنِ مَہجُور کجا
دُردانہ کجا، حوصلۂ مُور کجا
ہرچند ز سوختَن ندارَم باکی
پروانہ کجا و آتشِ طُور کجا
تیرا وصال کہاں اور ہجر کا مارا کہاں، گوہرِ نایاب کہاں اور چیونٹی کہاں، ہر چند کہ میں جل جانے سے نہیں ڈرتا لیکن پروانہ کہاں اور آتشِ طور کہاں۔
(6)
مجنونِ تو کوہ را، ز صحرا نَشَناخت
دیوانۂ عشقِ تو سر از پا نَشَناخت
ہر کس بہ تو رہ یافت ز خود گم گردید
آں کس کہ ترا شناخت خود را نَشَناخت
تیرے مجنوں کو پہاڑ و صحرا کی پہچان نہیں ہے (اس کیلیے دونوں ایک برابر ہیں)، تیرے عشق کا دیوانہ سر اور پاؤں میں فرق نہیں جانتا، ہر کوئی جسے تیری راہ ملی اسے نے خود کو گم کر دیا، ہر کوئی جس نے تجھے پہچان لیا وہ اپنی شناخت بھول گیا۔
(7)
باز آ، باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما درگۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی، باز آ
(اے میرے بندے) واپس آ، واپس آ، توجو کوئی بھی ہے، لوٹ آ، چاہے تو کافر ہے، یہودی ہے یا بت پرست ہے، لوٹ آ، یہ ہماری بارگاہ ناامید و مایوس ہونے کی جگہ نہیں ہے، تُو نے اگر سو بار بھی توبہ توڑی ہے پھر بھی لوٹ آ۔
(8)
من بے تو دمے قرار نتوانَم کرد
احسان ترا شمار نتوانم کرد
گر بر سرِ من زباں شَوَد ہر موئے
یک شکر تو از ہزار نتوانم کرد
مجھے تیرے بغیر ایک پل بھی قرار نہیں ہے، میں تیرے احسانات کا شمار ہی نہیں کر سکتا، اگر میرے سر کا ہر بال زبان بن جائے تو میں پھر بھی تیرے ہزاروں احسانوں میں سے ایک احسان کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔
(9)
گفتَم، چشمَم، گفت، بہ راہَش می دار
گفتم، جگرم، گفت، پُر آہَش می دار
گفتم، کہ دِلَم، گفت، چہ داری در دل
گفتم، غمِ تو، گفت، نگاہَش می دار
میں نے کہا کہ میری آنکھیں، اس نے کہا انہیں راہ پر لگائے رکھ، میں نے کہا کہ میرا جگر، اس نے کہا اسے آہوں سے بھرا ہوا رکھ، میں نے کہا کہ میرا دل، اس نے کہا دل میں کیا ہے، میں نے کہا کہ تیرا غم، اس نے کہا کہ اس کی (غم کی) دیکھ بھال کر۔
بہت ہی خوبصورت جناب
ReplyDeleteدر کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا
میرے لیے تو اس سے بہتر کوئی توجیہ ملنا نا ممکن تھی
بجا فرمایا فاتح صاحب واقعی لاجواب رباعی ہے۔
ReplyDeleteلاجواب!!
ReplyDeleteشکریہ نظامی صاحب
ReplyDeleteبہت خوب جناب وارث صاحب نہایت اعلیٰ پاءے کا کلام منتخب کیا ہے
ReplyDeleteصد بار اگر توبہ شکستی، باز آ
ReplyDeleteواہ۔ بہترین انتخاب۔
شکریہ شاہ صاحب اور فرحت
ReplyDeleteThank you for this post. I shall also put this treasure on my blog. May God bless you!
ReplyDeleteبہت شکریہ محترم بلاگ پر تشریف لانے اور اس پوسٹ کو پسند کرنے کیلیے، میں نے آپ کے بلاگ پر اس کو دیکھ لیا ہے آپ نے انگریزی ترجمہ بھی اچھا کیا ہے۔
ReplyDeleteما شاٗ اللہ بہت عمدہ انتخاب ہے۔
ReplyDeleteصد بار اگر توبہ شکستی باز آ والی رباعی آج تک مولائے روم کے حوالے سے پڑھی تھی۔ آج آپ کے توسط سے معلوم ہوا کہ یہ در حقیقت حضرت ابوالخیر کا کلام ہے۔
شکریہ
غلام مرتضیٰ علی
بہت شکریہ جناب غلام مرتضیٰ علی صاحب، امید ہے بلاگ پر تشریف لاتے رہیں گے۔
ReplyDeleteجزاک اللہ خیرا وارث صاحب ماشاٗاللہ بہت عمدہ انتخاب ہے۔
ReplyDeleteبہت شکریہ اظہر صاحب
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ReplyDeleteوارث صاحب جناب کی کاوش جو بالخصوص فارسی کلام کے حوالے سے آبِ زریں سے لِکھنے کے قابل ہے اللہ آپ کو اِس کا نعم البدل عطا فرمائےآمین اور فارسی کا شعر کِسی نے آپ ہی کے لئے کہا تھا
جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
مرا بہ جانِ جہاں ہمراز کر دی
نوازش آپ کی ملک حبیب اللہ صاحب، بہت شکریہ آپ کا ان کلماتِ خیر کے لیے، امید ہے بلاگ پر تشریف لاتے رہیں گے۔
Deleteوالسلام
دلخسته و سینه چاک میباید شد
وز هستی خویش پاک میباید شد
آن به که به خود پاک شویم اول کار
چون آخر کار خاک میباید شد ابوسعید ابوالخیر
در دل همه شرک و روی بر خاک چه سود
ReplyDeleteبا نفس پلید جامهٔ پاک چه سود
زهرست گناه و توبه تریاک وی است
چون زهر به جان رسید تریاک چه سود ابوسعید ابوالخیر
یا رب به محمد و علی و زهرا
ReplyDeleteیا رب به حسین و حسن و آلعبا
کز لطف برآر حاجتم در دو سرا
بیمنت خلق یا علی الاعلا
***
ای شیر سرافراز زبردست خدا
ای تیر شهاب ثاقب شست خدا
آزادم کن ز دست این بیدستان
دست من و دامن تو ای دست خدا
رباعیات حضرت ابوالسعید ابو الخیر
ReplyDeleteبہت شکریہ قبلہ محترم، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteزہے قسمت۔۔
DeleteHer ik ka waqif e asraar e zameer hai too
ReplyDeleteAur halat e ejz mai dastgeer hai too
De k tofeeq e toba uzr kar le qubool
Sab ka tawwab o uzr pazeer Hai to
Translation by Syed Ale Azhar Aanis
ہر اک کا واقف اسرار ضمیر ہے تو
ReplyDeleteاور حالت عجز میں دستگیر ہے تو
دے کے توفیق توبہ عذر کر لے قبول
سب کا توّاب و عذر پذیر ہے تو
(سید آل اظہر آنس)