جاوید نامہ اقبال کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کو وہ اپنا حاصلِ زندگی سمجھتے تھے اور وہ ہے بھی۔ دراصل یہ اقبال کا افلاک کا ایک سفر نامہ ہے جس پر مولانا رومی انہیں ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس سفر میں وہ مختلف سیاروں اور آسمانوں کی سیر کرتے ہیں اور کئی مشاہیر سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
جاوید نامہ کا تفصیلی تعارف انشاءاللہ پھر کسی وقت لکھوں گا، یہاں پر نیچے جو تین بند ہیں انکا سیاق و سباق لکھ دیتا ہوں تا کہ ان کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔
اقبال اور رومی جب آسمانوں کے سفر پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں۔ فلک قمر پر انکی ملاقات ایک "جہاں دوست" سے ہوتی ہے، جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رشی "وشوامتر" ہے۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی یرغمید کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا ہے (یہ دونوں نام ظاہر ہے اقبال نے ہی دیے ہیں)۔
طواسین، دراصل طاسین کی جمع ہے، اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے، منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جبکہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے۔ وادیِ طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرتشت، حضرت عیسٰی (ع) اور حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات بیان کی ہیں۔
اس مقام پر میں پچھلے کئی برسوں سے اٹکا ہوا ہوں اور جب بھی جاوید نامہ کا یہ حصہ نظر سے گزرتا ہے دل بے اختیار اقبال کی عظمت کو سلام کر اٹھتا ہے۔ اقبال کی فکر کا عروج ہے کہ یہ تعلیمات چار مختلف انداز سے بیان کی ہیں۔ گوتم کی تعلیمات کا عنوان ہے "طاسینِ گوتم، توبہ آوردن زنِ رقاصہ عشوہ فروش" یعنی ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ اس میں گوتم بدھ اور رقاصہ کا مکالمہ لکھا ہے۔ زرتشت کی تعلیمات کا عنوان "آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمایش کرنا اور ان دونوں کا مکالمہ ہے۔ حضرت مسیح (ع) کی تعلیمات "رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مشہور روسی ناول نگار، مفکر اور مصلح ٹالسٹائی کے خواب کی صورت میں بیان کی ہیں۔
حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات "نوحہ رُوحِ ابو جہل در حرمِ کعبہ" یعنی ابوجہل کی روح کا حرم کعبہ میں نوحے کی صورت میں بیان کی ہیں۔ ایک بار پھر یہاں اقبال کی عظمت اور اوجِ خیال اور انفرادیت کو سلام کرتے ہی بن پڑتی ہے۔ اقبال نے یہاں اس انسانی اور نفسیاتی نکتے سے کام لیا ہے کہ آپ کا دشمن آپ پر جو جو الزام لگائے گا اور جو جو آپ کے نقائص بیان کرے گا وہ دراصل آپ کی خوبیاں ہیں۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ علامہ کیا فرماتے ہیں۔
طاسینِ مُحمّد
نوحہ رُوحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ
سینۂ ما از مُحمّد داغ داغ
از دمِ اُو کعبہ را گل شُد چراغ
ہمارا سینہ محمد (ص) کی وجہ سے داغ داغ ہے، اسکے دم (پھونک) سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا۔
از ہلاکِ قیصر و کسریٰ سرُود
نوجواناں را ز دستِ ما ربُود
اُس نے قیصر و کسریٰ (بادشاہوں) کی بربادی کی باتیں کیں، وہ نوجوانوں کو ہمارے ہاتھوں میں سے اچک کر لے گیا۔
ساحر و اندر کلامَش ساحری است
ایں دو حرفِ لااِلٰہ خود کافری است
وہ جادوگر ہے اور اس کے کلام کے اندر جادوگری ہے، یہ دو حرف لاالہ (کوئی معبود نہیں) تو خود کافری ہے کہ ہر کسی کا انکار کیا جا رہا ہے۔
تا بساطِ دینِ آبا دَر نَوَرد
با خداوندانِ ما کرد، آنچہ کرد
جب اس نے ہمارے آبا و اجداد کے دین کی بساط الٹ دی تو ہمارے خداؤں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔
پاش پاش از ضَربتَش لات و منات
انتقام از وے بگیر اے کائنات
اس کی ضرب سے لات و منات پاش پاش ہو گئے، اے کائنات (اسکے اس فعل و جرأت پر) اس سے انتقام لے۔
دل بہ غایب بست و از حاضر گَسَست
نقشِ حاضر را فسونِ او شکست
اس نے غائب سے دل لگایا ہے اور جو حاضر ہیں (بُت) ان سے ناطہ توڑا، اسکے جادو نے حاضر کے نقش کو توڑ دیا۔
دیدہ بر غایب فرو بَستَن خطاست
آنچہ اندر دیدہ می نایَد کجاست
غایب پر نگاہ مرکوز رکھنا (دل لگانا) خطا ہے، جو نظر ہی نہیں آتا وہ کہاں ہے (اس کا کیا وجود جو نظر ہی نہ آئے)۔
پیشِ غایب سجدہ بردَن کُوری است
دینِ نو کُور است و کوری دُوری است
غایب کے سامنے سجدہ کرنا تو اندھا پن ہے، یہ نیا دین اندھا پن ہے اور اندھا پن (حاضر کو نہ دیکھ پانا) تو دوری ہے، فراق ہے۔
خُم شُدَن پیشِ خدائے بے جہات
بندہ را ذوقے نَبَخَشد ایں صلٰوت
بے جہات خدا کے سامنے جھکنا، بندے کو یہ (ایسی) نماز کوئی ذوق عطا نہیں کرتی، اس شعر میں اقبال نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے اسی نماز میں ذوق ہے جس میں بندہ خدا کو سامنے دیکھے یعنی مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے۔
مذہَبِ اُو قاطعِ مُلک و نسَب
از قریش و منکر از فضلِ عرَب
اس کا مذہب ملک و نسب کو کاٹتا ہے، یعنی مساوات کا درس دیتا ہے، وہ قریش اور عرب کی فضیلت کا منکر ہے۔
در نگاہِ اُو یکے بالا و پست
با غُلامِ خویش بر یک خواں نشست
اسکی نگاہ میں اعلٰی اور ادنٰی ایک برابر ہیں، وہ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا۔
قدرِ احرارِ عرب نشناختہ
با کَلِفتانِ حبَش در ساختہ
اس نے عرب کے آزاد بندوں کی قدر نہیں جانی، اس نے افریقہ کے بد صورتوں (اور غلاموں) سے موافقت پیدا کر لی۔
احمَراں با اسوَداں آمیختَند
آبروئے دُودمانے ریختَند
اس نے سرخ رنگ والوں (عربوں) کو سیاہ رنگ والوں (حبشیوں) کے ساتھ ملا دیا، اس نے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی۔
ایں مساوات ایں مواخات اعجمی است
خوب می دانَم کہ سلماں مزدکی است
یہ مساوات اور بھائی چارے کی باتیں عجمی ہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ سلمان (فارسی رض) مزدکی ہے۔ مزدک پانچویں صدی عیسوی کے آخر اور چھٹی صدی کے قبل کا ایک ایرانی مصلح تھا جس نے مساوات کی بات کی، ایرانی بادشاہ صباد نے اسکے نظریات قبول بھی کر لیے لیکن بعد میں اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد خسرو نوشیرواں کے ہاتھوں مزدک اور اسکے لاکھوں معتقدین کا قتلِ عام کروا دیا۔ ابو جہل یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سلمان فارسی (رض) بھی مزدکی ہیں اور انہوں ہی نے ہی حضرت محمد (ص) کو مساوات کی باتیں سکھائی ہیں وگرنہ عرب میں ان باتوں کا کیا کام۔
ابنِ عبداﷲ فریبَش خوردہ است
رستخیزی بر عرب آوردہ است
عبداللہ کے بیٹے (حضرت محمد ص) نے اسی (سلمان) کا فریب کھایا ہے اور عرب پر (مساوات) کی جنگ مسلط کر دی ہے۔
عترتِ ہاشم ز خود مہجور گشت
از دو رکعت چشمِ شاں بے نور گشت
ہاشم کا خاندان اپنے آپ (اپنی فضیلت) سے ہی دور ہو گیا ہے، دو رکعت کی نماز نے انکی آنکھوں کو بے نور کر دیا ہے۔
اعجمی را اصلِ عدنانی کجاست
گنگ را گفتارِ سحبانی کجاست
عجمیوں کو عدنانیوں (قریش کے جدِ امجد عدنان) سے کیا نسبت ہو سکتی ہے، گونگا کہاں اور سبحانی کی گفتار کہاں۔ (سبحاں زمانۂ اسلام کا ایک نامور اور شعلہ بیاں خطیب و مقرر تھا، فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور بعد میں امیر معاویہ کے مصاحبین مین شامل ہو کر خطیب العرب کا خطاب پایا)۔
چشمِ خاصانِ عرب گردیدہ کور
بر نیائے اے زہَیر از خاک گور
عرب کے خاص لوگوں کی آنکھ اندھی ہو گئی ہے، اے زُہیر اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہو۔ (زہیر عرب کا نامور شاعر جو اسلام کے خلاف شعر کہہ کر عربیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا)۔
اے تو ما را اندریں صحرا دلیل
بشکن افسونِ نوائے جبرئیل
اے (زہیر) تو صحرا (عرب) میں ہمارا رہبر ہے، تو جبرائیل کی نوا یعنی قرآن کا جادو (اپنی شاعری سے) توڑ دے۔
باز گو اے سنگِ اسوَد باز گوے
آں چہ دیدیم از مُحمّد باز گوے
پھر بیان کر اے کالے پتھر (حجر اسود در کعبہ) پھر بیان کر، محمد (ص) کے ہاتھوں جو کچھ ہم نے دیکھا (ہم ہر جو گزری وہ اتنی دردناک کہانی ہے کہ) پھر بیان کر۔
اے ہبَل، اے بندہ را پوزش پذیر
خانۂ خود را ز بے کیشاں بگیر
اے ہبل (قریش کا مشہور بت و معبود) اے بندوں کے عذر قبول کرنے والے، اپنے گھر (کعبہ) کو ان بے دینوں سے واپس لے لے۔
گلّۂ شاں را بہ گُرگاں کن سبیل
تلخ کن خرمائے شاں را بر نخیل
ان کے بھیڑوں کے گلے کو بھیڑیوں کے حوالے کر، انکی کھجوروں کو درختوں پر ہی تلخ کر دے۔
صرصرے دہ با ہوائے بادیہ
"أَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَۃ"
ان پر صحرا کی ہوا کو صرصر (تند و تیز و گرم طوفانی ہوا) بنا کر بھیج، تا کہ وہ اس طرح گر جائیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے۔ دوسرا مصرع سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے۔
اے منات اے لات ازیں منزل مَرَو
گر ز منزل می روی از دل مَرَو
اے لات و منات اس منزل (کعبہ) سے مت جاؤ، اگر اس منزل سے چلے بھی جاؤ تو ہمارے (عرب و قریش) کے دلوں سے مت جاؤ۔
اے ترا اندر دو چشمِ ما وثاق
مہلتے، "اِن کُنتِ اَزمَعتِ الِفراق"
اے وہ کہ تمھارا ہماری آنکھوں کے اندر گھر ہے، اگر تم نے جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مہلت تو دو، کچھ دیر تو ٹھہرو۔ عربی ٹکڑا مشہور عربی شاعر امراء القیس کے ایک شعر کا پارہ ہے۔
انہی اشعار کے ساتھ اقبال فلکِ قمر سے رومی کی معیت میں فلکِ عطارد کی طرف سفر کر جاتے ہیں۔
Mar 2, 2009
حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ - جاوید نامہ از اقبال سے اشعار
متعلقہ تحاریر : اقبالیات,
جاوید نامہ,
جمی انجنیئر,
علامہ اقبال,
فارسی شاعری
Labels:
اقبالیات,
جاوید نامہ,
جمی انجنیئر,
علامہ اقبال,
فارسی شاعری
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
واہ۔ سبحان اللہ اور جزاک اللہ۔
ReplyDeleteوارث آپ کے بلاگ کی ہر تحریربہترین ہوتی ہے لیکن آج کی پوسٹ کی تعریف کے لئے مجھے الفاظ نہیں مل رہے۔
کیا کہنے۔۔بہت اچھی اور معلوماتی تحریر ہے۔
ReplyDeleteنوازش آپ کی فرحت اور شاکر صاحب، شکریہ
ReplyDeleteبہت عمدہ!
ReplyDeleteشکریہ نظامی صاحب۔
ReplyDeleteاسلام علیکم
ReplyDeleteوارث صاحب! اقبال کے فارسی کلام کو ہم جیسے لوگوں تک پہنچا کے آپ جو اقبال شناسی کا کارِخیر انجام دے رہے ہیں اس پر اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے.
آپ کی ہر تحریر ہی کمال ہوتی ہے خصوصاً اقبالیات کے زمرے میں. آپ کی بتائی ہوئی ویب سائٹ سے میری فارسی سیکھنے کی کوشش جاری ہے، بس تھوڑی سی مستقل مزاجی اور وقت کی کمی آڑے آتی ہے. کوئی ایسی جگہ بھی بتائیں جہاں سے اقبال کا فارسی کلام ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہو.
پیشگی شکریہ
ولسلام
شکریہ عین لام میم، نوازش۔ اقبال کا کل کلام، اردو ، فارسی انکی آٖفیشل ویب سائٹ پر موجود ہے، جس کا ربط اس بلاگ کی سائیڈ بار میں ‘روابط اردو شعراء کرام و اُدَبا‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ReplyDeleteواہ، وارث بھائی آپ ہمیں اقبالؒ کے فارسی کلام معنی و مطالب کے ساتھ سمجھا رہے ہیں۔
ReplyDeleteاالہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین!
شکریہ بلال صاحب، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteواللہ بہترین طریقے سے سمجھایا گیا ہے
ReplyDeleteشکریہ
Delete