May 2, 2012

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا - غزلِ سودا

مرزا محمد رفیع سودا کی ایک خوبصورت غزل

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا

سرگرمِ نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متّصِل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا

مرزا، رفیع، سودا، مرزا رفیع سودا، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، mirza, rafi, sauda, mirza rafi sauda, classical urdy poetry, urdu poetry
 مرزا محمد رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
جس تیرگی سے روز ہے عشّاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرہٴ خوباں پہ تِل بنا

لب زندگی میں کب ملے اُس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو مت کرکے گِل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
 ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دِل بنا

سُن سُن کے عرضِ حال مرا یار نے کہا
سودا نہ باتیں بیٹھ کے یاں متّصِل بنا

مرزا محمد رفیع سودا

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--


آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا


آدم کَ - مفعول - 122
جسم جب کِ -فاعلات - 1212
عناصر سِ - مفاعیل - 1221
مل بنا - فاعلن - 212

کچ آگ - مفعول - 122
بچ رہی تِ - فاعلات - 1212
سُ عاشق کَ - مفاعیل - 1221
دل بنا - فاعلن - 212
--------

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو غزل, بحر مضارع, تقطیع, کلاسیکی اردو شاعری, مرزا رفیع سودا

1 comment:

  1. حصار عافیتے گر ہوس کنی غالب
    چو ما ب حلقہ زندان خاکسار بیا

    ReplyDelete