امیر خسرو کی ایک اور خوبصورت غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔
دِلَم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنَم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل عاشقی میں آوارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔ میرا جسم بے دلی سے بیچارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ بیچارہ ہوجائے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
مرا دل عشق میں آوارہ ہے، آوارہ تر ہوجائے
مرا تن غم سے بے چارہ ہوا، بے چارہ تر ہوجائے
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بُتاں، آوارہ تر بادا
ترجمہ
اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
قریشی
اگر مجھ کو دعائے خیر دینی ہے تو کہہ زاہد
کہ وہ آوارۂ کوئے بتاں آوارہ تر ہو جائے
دِلِ من پارہ گشت از غم نہ زاں گونہ کہ بہ گردَد
اگر جاناں بدیں شاد است، یا رب پارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل غم سے ٹکرے ٹکرے ہوگیا ہے اور اسطرح بھی نہیں کہ وہ ٹھیک ہوجائے، اگر جاناں اسی طرح خوش ہے تو یا رب میرا دل اور پارہ پارہ ہوجائے۔
قریشی
مرا دل پارہ پارہ ہے، نہیں امّید بہتر ہو
اگر جاناں اسی میں شاد ہے تو پارہ تر ہو جائے
Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو |
من ایں گویَم کہ بہرِ جانِ من خونخوارہ تر بادا
ترجمہ
سبھی کہتے ہین کہ اسکی خونخواری سے خلق کی جان تنگ ہوگئی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ میری جان کیلیے وہ اور زیادہ خونخوار ہو جائے
قریشی
سبھی کہتے ہیں خونخواری سے اُسکی خلق عاجز ہے
میں کہتا ہوں وہ میری جان پر خونخوارہ تر ہو جائے
چو با تر دامنی خُو کرد خُسرو با دوچشمِ تر
بہ آبِ چشمِ مژگاں دامِنَش ہموارہ تر بادا
ترجمہ
اے خسرو، اگر تیری دو بھیگی ہوئی آنکھوں نے تر دامنی کو اپنی عادت بنا لیا ہے تو تیرا دامن آنکھوں کے آنسوؤں سے اور زیادہ بھیگ جائے۔
قریشی
دو چشمِ تر سے خسرو کو ہوئی تر دامنی کی خُو
برستی آنکھ سے دامن مگر ہموارہ تر ہو جائے
----------
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
تقطیع -
دلم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
دِلَم در عا - مفاعیلن - 2221
ش قی آوا - مفاعیلن - 2221
رَ شُد آوا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
تَنم از بی - مفاعیلن - 2221
دِلی بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ شد، بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
Buhat Zabardast
ReplyDeleteدو چشمِ تر سے خسرو کو ہوئی تر دامنی کی خُو
ReplyDeleteبرستی آنکھ سے دامن مگر ہموارہ تر ہو جائے
بہت خوب۔ اور شکریہ کہ با ترجمہ فارسی کلام پڑھ کر مجھ جیسے لوگوں کو بھی فارسی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ہے۔ :)
شکریہ محترم اور بلاگ پر خوش آمدید۔ فرحت نوازش آپ کی۔
ReplyDelete