May 23, 2008

پاکستان سپیکٹیٹر پر میرا انٹرویو

دی پاکستان سپیکٹیٹر کی محترمہ غزالہ خان نے کچھ دن پہلے یہاں میرے انٹرویو کی بات کی تھی، میں نے انہیں لکھا کہ میں تو بلاگنگ کی دنیا میں بالکل نووارد ہوں اور ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں بلاگ لکھتے ہوئے، اسلیئے ایک دفعہ پھر دیکھ لیجیئے کہ میں انٹرویو کے قابل ہوں بھی یا نہیں۔
بہرحال انہوں نے سوالات مجھے بھیج دیئے جن کے جواب میں نے بھی لکھ بھیجے، اور کل یہ انٹرویو چھپ گیا، جسے اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 21, 2008

پنجابی غزل طارق عزیز - گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے

گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے
ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے

میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی
ایہہ خواہشاں دا حباب کیہ اے

جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا
تے فیر جگ دی کتاب کیہ اے
Tariq Aziz, طارق عزیز، Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Tariq Aziz, طارق عزیز
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نے
نئیں تے شاخ گلاب کیہ اے

ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حکم عالی جناب کیہ اے

(طارق عزیز ۔ ہمزاد دا دُکھ)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

مختصر نظماں - منیر نیازی

اِک موقعے تےایڈیاں دَردی اکھاں دے وچ
ہنجو بھرن نہ دیواں
وَس چلے تے ایس جہان وچ
کسے نوں مرن نہ دیواں

ہوا نال ٹکراںاُپر قہر خدا میرے دا
ہیٹھاں لکھ بلاواں
سب راہواں تے موت کھلوتی
کیہڑے پاسے جاواں
Munir Niazi, منیر نیازی, Punjab Poetry, پنجابی شاعری
Munir Niazi, منیر نیازی

اک کُڑی
پیار کرن توں کافی پہلے
کنی سوہنی لگدی سی
اپنے مرن توں کافی پہلے
کنی سوہنی لگدی سی

شہر دے مکاناپنے ای ڈر توں
جُڑے ہوئے نیں
اک دوجے دے نال
مزید پڑھیے۔۔۔۔

چار چپ چیزاں - منیر نیازی

بربر، جنگل، دشت، سمندر، سوچاں دے پہاڑ
جیہڑے شہر دے کول ایہہ ہوون اوس نوں دین وگاڑ
اندروں پاگل کر دیندی اے، ایہناں دی گرم ہواڑ
ایہناں دے نیڑے رہن لئی، بڑی ہمت اے درکار
ایناں دی چُپ دی ہیبت دا کوئی جھل نہ سکدا بھار
Munir Niazi, منیر نیازی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Munir Niazi, منیر نیازی


مزید پڑھیے۔۔۔۔

شعر منیر نیازی

بدل اُڈے تے گم اسمان دسیا
پانی اتریا تے اَپنا مکان دسیا
Munir Niazi, منیر نیازی
Munir Niazi, منیر نیازی
اوتھوں اگے فراق دیاں منزلاں سَن
جتھے پہنچ کے تیرا نشان دسیا

کم اوہو منیر سی مشکلاں دا
جہیڑا شروع وچ بہت اسان دسیا
مزید پڑھیے۔۔۔۔

پنجابی غزل واصف علی واصف - ایہہ بن سَن موتی انمول

ایہہ بن سَن موتی انمول
ہنجو سانبھ کے رکھنا کول

شہر دے بُوے کُھل جاون گے
پہلے دِل دا بُوا کھول

جس دے ناں دی ڈھولک وجدی
اوسے یار نوں کہندے ڈھول

جو کِیتا تُوں چنگا کِیتا
دَبّی رہن دے، اَگ نہ پھول
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف

میرے ورگا مل جاوے گا
پہلے اپنے ورگا ٹول

سونے ورگی اے جوانی
اینویں نہ مٹی وِچ رول

اج تے پتھّر وی پُچھدا اے
کیہہ چاہناں ایں واصف بول

(واصف علی واصف - بھرے بھڑولے)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

میں اور عمران سیریز کے ناول

“اوئے الو کے پٹھے” ۔۔۔ والد صاحب نے دھاڑتے ہوئے مجھے پکارا۔
“جی، جی۔۔۔۔۔ ابو جی۔۔۔۔۔۔” میں نے کہنے کی کوشش کی، مگر جیسے میری آواز میرے اندر ہی کہیں مر چکی تھی۔
“اوئے تو پھر یہ گھٹیا ناول پڑھ رہا ہے، خبیث۔۔۔۔”
ہوا کچھ یوں تھا، کہ اللہ جنت نصیب کرے، والد صاحب مرحوم نے محلے کی ساتھ والی گلی میں ایک گھر کے باہر بیٹھے ہوئے مجھے عمران سیریز کا ناول پڑھتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔
اس سے پہلے والد صاحب، گھر میں مجھے کئی بار منع کرچکے تھے بلکہ پٹائی ہوتے ہوتے بچی تھی، اسکا حل میں نے یہ ڈھونڈا ہوا تھا کہ محلے کی ایک ایسی گلی میں کسی کے گھر کے باہر بیٹھ کر میں ناول پڑھا کرتا تھا جسکے بارے میں مجھے پورا یقین تھا کہ والد صاحب ادھر نہیں آئیں گے، لیکن اس دن میری قسمت خراب تھی کہ چھاپہ پڑگیا۔
والد صاحب کے صبر کی یہ شاید آخری حد تھی، انہوں نے آؤ، دیکھا نہ تاؤ، زناٹے کا ایک تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا، مجھے بازو سے پکڑا اور سیدھے اس دکاندار کے پاس لے گئے جس سے میں عمران سیریز کے ناول کرائے پر لیکر پڑھا کرتا تھا۔ وہ دکاندار والد صاحب کا شناسا تھا اس نے فوری حامی بھر لی کے آئندہ سے مجھے ناول نہیں دے گا۔
یوں تو جنوں، پریوں، عمرو عیار اور کسی حد تک اشفاق کی انسپکڑ سیریز میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا لیکن جب سے عمران سیریز میرے ہاتھ لگی تھی، میرا اوڑھنا، بچھونا یہی ناول تھے، اور تو اور میں کرکٹ کھیلنا بھی بھول چکا تھا۔
ہمارے محلے میں ایک دودھ، دہی اور چائے والے کی دکان تھی، وہ کئی بھائی تھے اور سبھی ناولوں اور جاسوسی ڈائجسٹوں کے رسیا تھے، اول اول تو ڈائجسٹوں کی طرف میں نے دھیان نہیں کیا لیکن ایک دن میں نے ایک سائیڈ پر پڑا ناول اٹھالیا۔ ایسے ہی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے وہ بہت اچھا لگا، پہلے تھوڑا سا پڑا، اور اگلے دن اس سے مانگ کر پورا پڑھ ڈالا۔ وہ مظہر کلیم کا کوئی ناول تھا۔ اب میری روٹین بن گئی تھی کہ میں اس دکان پر جاتا اور انکے نئے ناول لانے کا انتظار کرتا، وہ سارے بھائی باری باری اسے پڑھتے اسلئے مجھے کافی انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن جس کہانی کے دو حصے ہوتے تھے اس میں میری “موجیں” ہوجاتی تھیں جتنی دیر میں وہ پہلا حصہ پڑھتے میں دوسرا حصہ ختم کرچکا ہوتا اور پہلا حصہ بعد میں پڑھتا۔
شوق بڑھا اور میں نے کتابیں کرایے پر دینے والی دکان تک رسائی حاصل کرلی، والد صاحب نے گھر میں جب میرے ہاتھ میں ناول دیکھا تو آگ بگولہ ہوگئے، دراصل سرورق پر بنی ہوئی خوبصورت اور سٹائلش لڑکیوں کی تصویریں انہیں کھل گئی تھیں، انہوں نے مری والدہ سے کہا کہ یہ بیہودہ اور فخش ناول پڑھنے لگ گیا ہے اس پر نظر رکھو۔ کھلے بندھوں ناول پڑھنے بند ہوئے تو میں نے، چھپ چھپ کر ناول پڑھنے شروع کردیے، کبھی چھت پھر، کبھی اس وقت جب دوپہر کو سب سوئے ہوتے تھے، رات کی تنہائی میں اسکول کے کام کا بہانہ کرکے اور دیر تک جاگ کر۔
لیکن بھلا عشق و مشک بھی چھپتی ہے، والدہ ہر بار کبھی بستر کی چادر کے نیچے سے، کبھی اسکول کی کتابوں کے ڈھیر سے ناول برآمد کرہی لیتی تھیں۔ کچھ عرصہ، تو میری منت سماجت پر انہوں نے والد صاحب کو کچھ نہ بتایا۔ لیکن کب تلک بھلا، وہ خود متفکر تھیں جب انہوں نے دیکھا کہ یہ باز نہیں آرہا تو بتادیا۔
اب گھر میں میرے لیے ناول پڑھنے ناممکن ہوچکے تھے، اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ محلے کی گلیوں میں بیٹھ کر پڑھنا شروع کردیا، وہاں سے تھپڑ کھا کر اٹھا تو ذہن نے ایک اور حل سوچا۔
میں گھر میں امی سے کہہ کر جاتا کہ کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں، اور سیدھا پہنچ جاتا ساتھ والے محلے کی ایک دکان پر۔ اسے میں نے کہا کہ مجھے یہاں بیٹھ کر پڑھنے دو تمھارا کیا جائے گا، الٹا چوبیس گھنٹے کی بجائے ناول فورا مل جایا کرے گا، وہ مان گیا اور مجھے یوں لگا کہ مجھے جنت مل گئی ہو، میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر ناول پر ناول پڑھتا ہی چلا جاتا، اسکی دکان میں مظہر کلیم کے جتنے ناول تھے شاید میں نے سارے پڑھ ڈالے تھے۔ مسلسل پڑھنے سے میری آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں اور ان میں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا تھا لیکن میں تھا کہ بس مخمور تھا۔ اسکا ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا، کہ میری پڑھنے کی رفتار کافی بڑھ گئی تھی، کیونکہ ایک فکر یہ بھی ہوتی تھی کہ گھر واپس جانا ہے اور ناول بھی ختم کرنا ہے۔
ایک وقت آیا کہ میں کالج پہنچ گیا، اب والد صاحب کی سختی بھی کچھ کم ہوچکی تھی اور میری آزادی بھی بڑھ چکی تھی سو کھلے بندھوں بھی پڑھتا اور کالج میں بھی عین ریاضی کی کلاس میں پچھلے بنچوں پر بیٹھ کر۔ وہ ہماری بور ترین کلاس ہوتی تھی، ٹیچر کو سب “پیار” سے “چُوچا” کہتے تھے کہ اسکی ہیتِ کذائی ہی کچھ ایسی تھی۔ اوپر سے ریاضی اور وہ بھی “چُوچے” کے ہاتھوں، نیند اور انگڑائیوں کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا تھا، بس عمران سیریز نے پورے دو سال ساتھ نبھایا۔
شاید والدِ مرحوم اپنے نقطہ نظر سے صحیح کہتے تھے، لیکن عمران سیریز کا ایک بھوت تھا جو سر پر سوار تھا، وہ عمران کی مزے مزے کی باتیں، وہ جولیانا کو چھیڑنا، وہ جوزف اور جوانا کی طاقتیں، وہ ایکس ٹو کا کردار، وہ جذباتی مناظر، وہ عمران کا اسرائیل کے منصوبوں کو تباہ کرنا، وہ نئی نئی ایجادیں، وہ مخالف تنظیموں کے باسز کی بوکھلاہٹیں، کتنے مصالحے تھے ان ناولوں میں جنہوں نے ایک عمر تک مجھے مسحور کئے رکھا۔
خیر وہ زمانہ بہت پیچھے رہ گیا اب، لیکن یہ حقیقت کہ اب بھی دیر رات گئے جب میرا ذہن کوئی ادق کتاب پڑھتے پڑھتے ماؤف ہوجاتا ہے تو میں مٹی سے اٹے ہوئے عمران سیریز کے وہ چند ناول نکال لیتا ہوں جو ایک مدت سے میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

رسم و رواج از سر سید احمد خان

جو لوگ کہ حسنِ معاشرت اور تہذیبِ اخلاق و شائستگیِ عادات پر بحث کرتے ہیں ان کے لئے کسی ملک یا قوم کے کسی رسم و رواج کو اچھا اور کسی کو برا ٹھہرانا نہایت مشکل کام ہے۔ ہر ایک قوم اپنے ملک کے رسم و رواج کو پسند کرتی ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے کیونکہ جن باتوں کی چُھٹپن سے عادت اور موانست ہو جاتی ہے وہی دل کو بھلی معلوم ہوتی ہیں لیکن اگر ہم اسی پر اکتفا کریں تو اسکے معنی یہ ہو جاویں گے کہ بھلائی اور برائی حقیقت میں کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف عادت پر موقوف ہے، جس چیز کا رواج ہو گیا اور عادت پڑ گئی وہی اچھی ہے اور جس کا رواج نہ ہوا اور عادت نہ پڑی وہی بری ہے۔

مگر یہ بات صحیح نہیں۔ بھلائی اور برائی فی نفسہ مستقل چیز ہے، رسم و رواج سے البتہ یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ کوئی اسکے کرنے پر نام نہیں دھرتا، عیب نہیں لگاتا کونکہ سب کے سب اس کو کرتے ہیں مگر ایسا کرنے سے وہ چیز اگر فی نفسہ بری ہے تو اچھی نہیں ہو جاتی۔ پس ہم کو صرف اپنے ملک یا اپنی قوم کی رسومات کے اچھے ہونے پر بھروسہ کر لینا نہ چاہیئے بلکہ نہایت آزادی اور نیک دلی سے اس کی اصلیت کا امتحان کرنا چاہیئے تا کہ اگر ہم میں کوئی ایسی بات ہو جو حقیقت میں بد ہو اور بسب رسم و رواج کے ہم کو اسکی بدی خیال میں نہ آتی ہو تو معلوم ہو جاوے اور وہ بدی ہمارے ملک یا قوم سے جاتی رہے۔

البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر گاہ معیوب ہونا اور غیر معیوب ہونا کسی بات کا زیادہ تر اس کے رواج و عدم رواج پر منحصر ہو گیا ہے تو ہم کس طرح کسی امیر کے رسم و رواج کو اچھا یا برا قرار دے سکیں گے، بلاشبہ یہ بات کسی قدر مشکل ہے مگر جبکہ یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ بھلائی یا برائی فی نفسہ بھی کوئی چیز ہے تو ضرور ہر بات کی فی الحقیقت بھلائی یا برائی قرار دینے کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ ہوگا۔ پس ہم کو اس طریقہ کے تلاش کرنے اور اسی کے مطابق اپنی رسوم و عادات کو بھلائی یا برائی قرار دینے کی پیروی کرنی چاہیئے۔

سر سیّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سر سیّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan
سب سے مقدم اور سب سے ضروری امر اس کام کے لئے یہ ہے کہ ہم اپنے دل کو تعصبات سے اور ان تاریک خیالوں سے جو انسان کو سچی بات کے سننے اور کرنے سے روکتے ہیں خالی کریں اور اس دلی نیکی سے جو خدا تعالیٰ نے انسان کے دل میں رکھی ہے ہر ایک بات کی بھلائی یا برائی دریافت کرنے پر متوجہ ہوں۔
یہ بات ہم کو اپنی قوم اور اپنے ملک اور دوسری قوم اور دوسرے ملک دونوں کے رسم و رواج کے ساتھ برتنی چاہیئے تا کہ جو رسم و عادت ہم میں بھلی ہے اس پر مستحکم رہیں اور جو ہم میں بری ہے اسکے چھوڑنے پر کوشش کریں اور جو رسم و عادت دوسروں میں اچھی ہے اس کو بلا تعصب اختیار کریں اور جو ان میں بری ہے اسکے اختیار کرنے سے بچتے رہیں۔

جبکہ ہم غور کرتے ہیں کہ تمام دنیا کی قوموں میں جو رسوم و عادات مروج ہیں انہوں نے کس طرح ان قوموں میں رواج پایا ہے تو باوجود مختلف ہونے ان رسوم و عادات کے ان کا مبدا اور منشا متحد معلوم ہوتا ہے۔
کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو عادتیں اور رسمیں قوموں میں مروج ہیں انکا رواج یا تو ملک کی آب و ہوا کی خاصیت سے ہوا ہے یا ان اتفاقیہ امور سے جن کی ضرورت وقتاً فوقتاً بضرورت تمدن و معاشرت کے پیش آتی گئی ہے یا دوسری قوم کی تقلید و اختلاط سے مروج ہو گئی ہے۔ یا انسان کی حالتِ ترقی یا تنزل نے اس کو پیدا کر دیا ہے۔ پس ظاہراً یہی چار سبب ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک میں رسوم و عادات کے مروج ہونے کا مبدا معلوم ہوتے ہیں۔

جو رسوم و عادات کہ بمقتضائے آب و ہوا کسی ملک میں رائج ہوئی ہیں انکے صحیح اور درست ہونے میں کچھ شبہ نہیں کیونکہ وہ عادتیں قدرت اور فطرت نے انکو سکھلائی ہیں جس کے سچ ہونے میں کچھ شبہ نہیں مگر انکے برتاؤ کا طریقہ غور طلب باقی رہتا ہے۔

مثلاً ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں اور لندن میں سردی کے سبب انسان کو آگ سے گرم ہونے کی ضرورت ہے پس آگ کا استعمال ایک نہایت سچی اور صحیح عادت دونوں ملکوں کی قوموں میں ہے مگر اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ آگ کے استعمال کے لئے یہ بات بہتر ہے کہ مکانات میں ہندی قواعد سے آتش خانہ بنا کر آگ کی گرمی سے فائدہ اٹھاویں یا مٹی کی کانگڑیوں میں آگ جلا کر گردن میں لٹکائے پھریں جس سے گورا گورا پیٹ اور سینہ کالا اور بھونڈا ہو جائے۔

طریقِ تمدن و معاشرت روز بروز انسانوں میں ترقی پاتا جاتا ہے اور اس لئے ضرور ہے کہ ہماری رسمیں و عادتیں جو بضرورتِ تمدن و معاشرت مروج ہوئی تھیں ان میں بھی روز بروز ترقی ہوتی جائے اور اگر ہم ان پہلی ہی رسموں اور عادتوں کے پابند رہیں اور کچھ ترقی نہ کریں تو بلا شبہ بمقابل ان قوموں کے جنہوں نے ترقی کی ہے ہم ذلیل اور خوار ہونگے اور مثل جانور کے خیال کئے جاویں گے، پھر خواہ اس نام سے ہم برا مانیں یا نہ مانیں، انصاف کا مقام ہے کہ جب ہم اپنے سے کمتر اور ناتربیت یافتہ قوموں کو ذلیل اور حقیر مثل جانور کے خیال کرتے ہیں تو جو قومیں کہ ہم سے زیادہ شایستہ و تربیت یافتہ ہیں اگر وہ بھی ہم کو اسی طرح حقیر اور ذلیل مثل جانور کے سمجھیں تو ہم کو کیا مقامِ شکایت ہے؟ ہاں اگر ہم کو غیرت ہے تو ہم کو اس حالت سے نکلنا اور اپنی قوم کو نکالنا چاہیئے۔

دوسری قوموں کی رسومات کا اختیار کرنا اگرچہ بے تعصبی اور دانائی کی دلیل ہے مگر جب وہ رسمیں اندھے پن سے صرف تقلیداً بغیر سمجھے بوجھے اختیار کی جاتی ہیں تو کافی ثبوت نادانی اور حماقت کا ہوتی ہیں۔ دوسری قوموں کی رسومات اختیار کرنے میں اگر ہم دانائی اور ہوشیاری سے کام کریں تو اس قوم سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس لئے کہ ہم کو اس رسم سے تو موانست نہیں ہوتی اور اس سبب سے اسکی حقیقی بھلائی یا برائی پر غور کرنے کا بشرطیکہ ہم تعصب کو کام میں نہ لاویں بہت اچھا موقع ملتا ہے۔ اس قوم کے حالات دیکھنے سے جس میں وہ رسم جاری ہے ہم کو بہت عمدہ مثالیں سینکڑوں برس کے تجربہ کی ملتی ہیں جو اس رسم کے اچھے یا برے ہونیکا قطعی تصفیہ کر دیتی ہیں۔

مگر یہ بات اکثر جگہ موجود ہے کہ ایک قوم کی رسمیں دوسری قوم میں بسبب اختلاط اور ملاپ کے اور بغیر قصد و ارادہ کے اور انکی بھلائی اور برائی پر غور و فکر کرنیکے بغیر داخل ہو گئی ہیں جیسے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا بالتخصیص حال ہے کہ تمام معاملاتِ زندگی بلکہ بعض اموراتِ مذہبی میں بھی ہزاروں رسمیں غیر قوموں کی بلا غور و فکر اختیار کر لی ہیں، یا کوئی نئی رسم مشابہ اس قوم کی رسم کے ایجاد کر لی ہے مگر جب ہم چاہتے ہیں کہ اپنے طریقِ معاشرت اور تمدن کو اعلیٰ درجہ کی تہذیب پر پہنچا دیں تا کہ جو قومیں ہم سے زیادہ مہذب ہیں وہ ہم کو بنظرِ حقارت نہ دیکھیں تو ہمارا فرض ہے ہم اپنی تمام رسوم و عادات کو بنظر تحقیق دیکھیں اور جو بری ہوں ان کو چھوڑیں اور جو قابلِ اصلاح ہوں ان میں اصلاح کریں۔

جو رسومات کے بسبب حالتِ ترقی یا تنزل کسی قوم کے پیدا ہوتی ہیں وہ رسمیں ٹھیک ٹھیک اس قوم کی ترقی اور تنزل یا عزت اور ذلت کی نشانی ہوتی ہیں۔

اس مقام پر ہم نے لفظ ترقی یا تنزل کو نہایت وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے اور تمام قسم کے حالاتِ ترقی و تنزل مراد لئے ہیں خواہ وہ ترقی و تنزل اخلاق سے متعلق ہو خواہ علوم و فنون اور طریقِ معاشرت و تمدن سے اور خواہ ملک و دولت و جاہ و حشمت سے۔

بلاشبہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں نکلنے کی جس کی تمام رسمیں اور عادتیں عیب اور نقصان سے خالی ہوں مگر اتنا فرق بیشک کہ بعضی قوموں میں ایسی رسومات اور عادات جو در حقیقت نفس الامر میں بری ہوں، کم ہیں، اور بعضی میں زیادہ، اور اسی وجہ سے وہ پہلی قوم پچھلی قوم سے اعلیٰ اور معزز ہے۔ اور بعض ایسی قومیں ہیں جنہوں نے انسان کی حالتِ ترقی کو نہایت اعلیٰ درجہ تک پہنچایا ہے اور اس حالتِ انسانی کی ترقی نے ان کے نقصانوں کو چُھپا لیا ہے جیسے ایک نہایت عمدہ و نفیس شیریں دریا تھوڑے سے گدلے اور کھاری پانی کو چھپا لیتا ہے یا ایک نہایت لطیف شربت کا بھرا ہوا پیالہ نیبو کی کھٹی دو بوندوں سے زیادہ تر لطیف اور خوشگوار ہو جاتا ہے اور یہی قومیں جو اب دنیا میں “سویلائزڈ” یعنی مہذب گنی جاتی ہیں اور در حقیقت اس لقب کی مستحق بھی ہیں۔

میری دلسوزی اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ اسی وجہ سے ہے کہ میری دانست میں ہم مسلمانوں میں بہت سے رسمیں جو در حقیقت نفس الامر میں بری ہیں مروج ہو گئی ہیں جن میں ہزاروں ہمارے پاک مذہب کے بھی بر خلاف ہیں اور انسانیت کے بھی مخالف ہیں اور تہذیب و تربیت و شایستگی کے بھی بر عکس ہیں اور اس لئے میں ضرور سمجھتا ہوں کہ ہم سب لوگ تعصب اور ضد اور نفسانیت کو چھوڑ کر ان بری رسموں اور بد عادتوں کے چھوڑنے پر مائل ہوں اور جیسا کہ ان کا پاک اور روشن ہزاروں حکمتوں سے بھرا ہوا مذہب ہے اسی طرح اپنی رسوماتِ معاشرت و تمدن کو بھی عمدہ اور پاک و صاف کریں اور جو کچھ نقصانات اس میں ہیں گو وہ کسی وجہ سے ہوں، ان کو دور کریں۔

اس تجربہ سے یہ نہ سمجھا جاوے کہ میں اپنے تئیں ان بد عادتوں سے پاک و مبرا سمجھتا ہوں یا اپنے تئیں نمونۂ عاداتِ حسنہ جتاتا ہوں یا خود اِن امور میں مقتدا بننا چاہتا ہوں، حاشا و کلا۔ بلکہ میں بھی ایک فرد انہیں افراد میں سے ہوں جنکی اصلاحِ دلی مقصود ہے بلکہ میرا مقصد صرف متوجہ کرنا اپنے بھائیوں کا اپنی اصلاحِ حال پر ہے اور خدا سے امید ہے کہ جو لوگ اصلاحِ حال پر متوجہ ہونگے، سب سے اول انکا چیلہ اور انکی پیروی کرنے والا میں ہونگا۔ البتہ مثل مخمور کے خراب حالت میں چلا جانا اور روز بروز بدتر درجہ کو پہنچتا جانا اور نہ اپنی عزت کا اور نہ قومی عزت کا خیال و پاس رکھنا اور جھوٹی شیخی اور بیجا غرور میں پڑے رہنا مجھ کو پسند نہیں ہے۔

ہماری قوم کے نیک اور مقدس لوگوں کو کبھی کبھی یہ غلط خیال آتا ہے کہ تہذیب اور حسنِ معاشرت و تمدن صرف دنیاوی امور ہیں جو صرف چند روزہ ہیں، اگر ان میں ناقص ہوئے تو کیا اور کامل ہوئے تو کیا اور اس میں عزت حاصل کی تو کیا اور ذلیل رہے تو کیا، مگر انکی اس رائے میں قصور ہے اور انکی نیک دلی اور سادہ مزاجی اور تقدس نے ان کو اس عام فریب غلطی میں ڈالا ہے۔ جو انکے خیالات ہیں انکی صحت اور اصلیت میں کچھ شبہ نہیں مگر انسان امور متعلق تمدن و معاشرت سے کسی طور علیحدہ نہیں ہو سکتا اور نہ شارع کا مقصود ان تمام امور کو چھوڑنے کا تھا کیونکہ قواعدِ قدرت سے یہ امر غیر ممکن ہے۔ پس اگر ہماری حالتِ تمدن و معاشرت ذلیل اور معیوب حالت پر ہوگی تو اس سے مسلمانوں کی قوم پر عیوب اور ذلت عائد ہوگی اور وہ ذلت صرف ان افراد اور اشخاص پر منحصر نہیں رہتی بلکہ انکے مذہب پر منجر ہوتی ہے، کیونکہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان یعنی وہ گروہ جو مذہبِ اسلام کا پیرو ہے نہایت ذلیل و خوار ہے۔ پس اس میں در حقیقت ہمارے افعال و عاداتِ قبیحہ سے اسلام کو اور مسلمانی کو ذلت ہوتی ہے۔ پس ہماری دانست میں مسلمانوں کی حسن معاشرت اور خوبیٔ تمدن اور تہذیب اخلاق اور تربیت و شایستگی میں کوشش کرنا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو دنیاوی امور سے جس قدر متعلق ہے اس سے بہت زیادہ معاد سے علاقہ رکھتا ہے اور جس قدر فائدے کی اس سے ہم کو اس دنیا میں توقع ہے اس سے بڑھ کر اُس دنیا میں ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 19, 2008

نعرۂ پاکستان کے خالق اصغر سودائی وفات پا گئے

لازوال نعرۂ پاکستان، “پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” کے خالق پروفیسر اصغر سودائی، 17 مئی کو سیالکوٹ میں چل بسے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔
پروفیسر سودائی نے 1944 میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی، ”ترانۂ پاکستان” اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ آپ سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ پوچھتے تھے کہ، مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ اور یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ “تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔”
اصغر سودائی 1926 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا اور علامہ اقبال کالج، سیالکوٹ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی تعلیم و ادب کی آبیاری میں گزاری، ایک شعری مجموعہ “چلن صبا کی طرح” یادگار چھوڑا ہے۔
سیالکوٹ، علامہ اقبال چوک میں‌ ایک ریسٹورنٹ ہے، ایمیلیا ہوٹل، یہ یوں سمجھیں کہ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے کہ جہاں عمعوماً شعرا، صحافی اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے ہیں، مرحوم بھی اکثر وہاں آتے تھے اور اپنے ملنے والوں کو تحریک پاکستان، قائد اعظم کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے لوگ ان کو “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا” بھی کہتے تھے۔
میں یہ لکھنے میں انتہائی فخر محسوس کر رہا ہوں کہ سیالکوٹ کے علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، فیض احمد فیض کی طرح پروفیسر اصغر سودائی بھی سیالکوٹ کے ایک ایسے فرزند ہیں کہ سیالکوٹ ان کے نام پر ہمیشہ فخر کرے گا۔
مجھے اصغر سودائی صاحب سے چند بار ملنے کا شرف حاصل رہا ہے، شرافت اور سادگی کا مرقع تھے مرحوم، انتہائی شفقت اور پیار سے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے آخری ملاقات ان سے کچھ سال قبل ہوئی تھی، وہ سیالکوٹ کچہری سے اپنے گھر کی طرف پیدل جا رہے تھے، میں‌ نے ان کو سڑک پر دیکھا تو رک گیا، بہت اصرار کیا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں لیکن نہیں‌ مانے، فقط دعائیں دیتے رہے۔
مجھے ان سے شرفِ تلمیذ تو حاصل نہیں رہا کہ میری کالج کی زندگی سے بہت پہلے وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے لیکن میں ایسے بزرگوں سے ضرور ملا ہوں جو انکے شاگرد رہ چکے تھے، ان میں‌ سے ایک مغل صاحب تھے، انکی قمیص کا سب سے اوپر والا بٹن ہمیشہ بند رہتا تھا، میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ بٹن بھری گرمیوں میں بھی بند رکھتے ہیں، کہنے لگے یہ اصغر سودائی صاحب کی نشانی ہے کہ جب ہمیں‌ پڑھایا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ وضع داری کا تقاضہ ہے کہ اساتذہ کے سامنے تمام بٹن بند رکھے جائیں، موحوم خود بھی اس عادت کو نبھاتے رہے اور انکے شاگرد بھی۔
اللہ اللہ، وضع دار بزرگ اس دنیا سے چلے ہی جا رہے ہیں، لیکن جب تک پاکستان کا نام باقی ہے (اور یہ تا قیامت ہے انشاءاللہ) مرحوم اصغر سودائی صاحب کا نام اور ان کا نعرہ “ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” بھی باقی رہے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 13, 2008

اقبال کی ایک فارسی غزل - فریبِ کشمَکَشِ عقل دیدنی دارَد

فریبِ کشمَکَشِ عقل دیدنی دارَد
کہ میرِ قافلہ و ذوقِ رہزنی دارد
عقل کی کشمکش کا فریب دیکھنے کی چیز ہے کہ یہ قافلہ کی امیر ہے لیکن رہزنی کا ذوق رکھتی ہے، یعنی راہنمائی کا دعوٰی کرتی ہے اور غلط راستہ پر ڈالتی ہے۔

نشانِ راہ ز عقلِ ہزار حیلہ مپرس
بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد
راستے کا نشان ہزار حیلے بنانے والی عقل سے مت پوچھ۔ آ اور عشق سے پوچھ کہ یہ ایک فن کا کمال رکھتا ہے، یعنی منزل کا نشان اور راستہ عشق ہی بتا سکتا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal
فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگویَد
حذر کہ شیوۂ اُو رنگِ جوزنی دارَد
فرنگ اگرچہ ستاروں سے گفتگو رکھتا ہے لیکن اس سے بچو کہ اسکا طریقہ جاودگری کا رنگ رکھتا ہے۔

ز مرگ و زیست چہ پرسی دریں رباطِ کہن
کہ زیست کاہشِ جاں، مرگ جانکنی دارَد
موت اور حیات کے بارے میں کیا پوچھتے ہو کہ اس پرانی سرائے یعنی دنیا میں زندگی، جان کے آہستہ آہستہ گھلنے کا اور موت جسم سے جان کو نکالنے کا نام ہے۔

سرِ مزارِ شہیداں یکے عناں درکش
کہ بے زبانیِ ما حرفِ گفتنی دارد
ہم شہیدوں کے مزار کے پاس ذرا باگ روک کہ ہماری بے زبانی بھی گفتگو کا حرف رکھتی ہے۔

دگر بدشتِ عرب خیمہ زن کہ بزمِ عجم
مٔے گذشتہ و جامِ شکستنی دارد
ایک دفعہ پھر عرب کے صحرا میں خیمہ لگا کہ عجم کی بزم وہ شراب ہے جو فرسودہ ہوچکی اور اسکے جام توڑنے کے قابل ہیں۔

نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد
اقبال نہ شیخِ شہر ہے، نہ شاعر اور نہ ہی خرقہ پوش صوفی وہ تو راستے میں بیٹھنے والا فقیر ہے لیکن دل غنی رکھتا ہے۔
(پیامِ مشرق)
——–

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -
فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی دارد
کہ میرِ قافلہ و ذوقِ رہزنی دارد

فَریب کش - مفاعلن - 2121
مَ کَ شے عق - فعلاتن - 2211
ل دیدنی - مفاعلن - 2121
دارَد - فعلن - 22

کِ میر قا - مفاعلن - 2121
ف لَ او ذو - فعلاتن - 2211
قِ رہ زَ نی - مفاعلن - 2121
دارَد - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔