Apr 7, 2009

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب - صُوفی تبسّم

صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم سی نابغہ روزگار شخصیت بھی چشمِ فلک کم کم ہی دیکھتی ہے اور ان کیلیے علامہ کا وہ مشہور و معروف شعر ہزار جان سے صادق آتا ہے جس میں ہزاروں سال رونے اور ایک دیدہ ور کے عالمِ ظہور میں آنے کا ذکر ہے۔ صوفی تبسم ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، استاد الاساتذہ کہ ساری زندگی گورنمنٹ کالج لاہور میں علم و ادب کی آبیاری کرتے رہے اور لاتعداد طالب علم انکے چشمۂ فیض سے سیراب ہوئے۔

اردو، فارسی اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر، شاعری کے مترجم، فارسی غزلوں کے ایسے خوبصورت ترجمے کیے کہ اصل فارسی غزلیں شاید ہی کسی کو یاد ہوں لیکن انکے تراجم زبان زد عام ہیں جیسے غالب کی فارسی غزل کا ترجمہ "میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں۔" اسکے علاوہ انکا ایک شاہکار ہم جیسے قتیلانِ غالب کیلیے غالب کی فارسی غزلیات کا اردو ترجمہ ہے وگرنہ کون آج کل فارسی پڑھتا ہے۔ انکی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو ان کا بچوں کے ادب کیلیے کام ہے، یہ ایک ایسا فراموش گوشہ ہے کہ چمنستانِ شاعری میں ہمہ باغ و بہار ہونے کے باوجود اس گوشے میں دائمی خزاں کا ڈیرا تھا لیکن صوفی تبسم نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور "ٹوٹ بٹوٹ" جیسے لازوال کردار تخلیق کیئے۔

صوفی غلام مصطفی تبسم کی اردو شاعری میں ایک خاص چاشنی ہے، انکی غزلیات میں ترنم ہے، تغزل ہے، روانی ہے، کیف اور مستی ہے اور وہ اردو فارسی کی سینکڑوں سالہ شعری روایات کی امین ہیں۔ انکی غزل 'سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی" مجھے بہت پسند ہے۔ اسکے علاوہ اپنی پسند کی ایک اور خوبصورت غزل درج کرتا ہوں۔
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, sufi ghulam mustafa tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
Sufi Ghulam Mustafa Tabassum,
 صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو

--------

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

یہ کا کِ - مفعول - 122
اک جہا کُ - فاعلات - 1212
کرو وقف - مفاعیل - 1221
اضطراب - فاعلان - 1212

یہ کیا کِ - مفعول - 122
ایک دل کُ - فاعلات - 1212
شکیبا نَ - مفاعیل - 1221
کر سکو - فاعلن - 212

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو غزل, بحر مضارع, تقطیع, صوفی تبسم

11 comments:

  1. وارث صاحب
    ایک طالبعلم کی حیثیت سے سوال پوچھ رہے ہیں اور جواب میں یہ نہ کہنا کہ سوال سے پہلے علم عروض کی وہ کتاب پڑھو جس کا ریفرنس آپ کے بلاگ پر ہے۔ کتاب لکھنے والا میرا کلاس فیلو رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ان سے کبھی بات نہیں ہوئی۔
    تقطیع میں
    یہ کی ہ کیوں غائب نہیں کی گئی؟
    کو کی و کیوں غائب کر دی گئی ہے جب کہ کرو اور سکو کی و موجود ہے؟

    ReplyDelete
  2. بہت اعلی۔۔۔
    صوفی صاحب کے ذکر میں کچھ تشنگی رہ گئی کچھ اور بھی لکھتے۔۔۔
    آپ کی تحریر بھی شیزان کی بوتل کی طرح ہے۔۔۔ مزا آنے لگتا ہے تو ختم ہوجاتی ہے۔۔۔
    ایک سوال بھی ہے۔۔ کسی خیال کو عروض کے ضابطے میں کس طرح لایا جاسکتاہے۔۔۔ کچھ رہنمائی کریں۔۔ اور اگر عروض کے بارے میں سیکھنا ہو تو کیا کیا جائے۔۔۔ جہاں‌ میں‌ ہوں وہاں تو دور دور تک کوئی ایسا بندہ نظر نہیں آتا ۔۔ اگر میں سیالکوٹ میں ہوتا تو روز آپ کا سر کھانے پہنچ جاتا۔۔
    بہرحال آن لائن تو سر کھاتا ہی رہوں‌گا آپ کا انشاءاللہ

    ReplyDelete
  3. افضل صاحب مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ محمد یعقوب آسی صاحب آپ کے کلاس فیلو رہے ہیں وہ میرے غائبانہ اساتذہ میں سے ہیں کہ دو تین سال پہلے جب میں علمِ عروض سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو ان کی کتاب نے بہت مدد کی، اور پڑھنا تو پڑتا ہے ابھی نہ سہی بعد میں سہی :)۔ حروف کیوں اور کیسے اور کب گرائے جاتے ہیں، اس سے پہلے میں اس 'میکنزم' کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں جو اسے پورے نظام میں ہے اور اسکی بنیاد خالص ریاضیاتی بنیادوں پر ہے جس کو علامتوں میں بھی ظاہر کیا جا سکتا ہے۔

    ایک شعر کا وزن دراصل الفاظ اور حروف کے اس پیٹرن کا نام ہے جو ہو بہو ایک متعین بحر کے پیٹرن کے مطابق ہے، یہ پیٹرن عروض کی اصطلاحات یا علامتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے اور جو بھی مصرع اور شعر اور غزل یا نظم ان بیسیوں پیٹرنز پر فٹ بیٹھے گا وہ وزن میں ہے۔

    مثلاً اسی غزل کی ایک بحر ہے اور اسکا ایک پیٹرن یا وزن ہے یعنی

    مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

    یہ چاروں لفظ جسے عروض میں اراکین کہا جاتا ہے کچھ حروف سے مل کر بنے ہیں مثلاً

    مفعول دراصل مَف عُو لُ ہے، اس میں دیکھیں مف اور عو دو حرفی ہیں اور دونوں حرف حرکت سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے جب کہ لُ یک حرفی ہے۔ اسی طرح فاعلات، فا عِ لا تُ، اور مفاعیل، مَ فا عی لُ اور فاعلن، فا عِ لُن۔

    دوحرفی اور یک حرف دونوں کو اگر کسی علامت سے ظاہر کیا جائے، کسی سے بھی مثلاً دوحرفی کو برابر کے نشان سے یا 2 کے ہندسے، اور یک حرفی کو ڈیش کے نشان سے یا 1 کے ہندسے سے، اور اس فرق سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جس کو جو آسان لگے۔

    یعنی اس بحر کے وزن کو ہم عروض کی زبان میں یا علامتوں سے ظاہر کر سکتے ہیں یعنی
    مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
    یا اردو طرز تحریر کے مطابق دائیں سے بائیں پڑھتے ہوئے
    یعنی 221 1212 1221 212

    اور چونکہ مصرعے یا شعر یا مکمل غزل میں یہی پیٹرن چلنا ہے سو اگر اس کے مطابق ہر مصرع کہا جائے تو وہ وزن میں ہے۔ جیسے اسی غزل کے مطلع کی تقطیع اوپر کی گئی اور یہ علم ہوا اور ثابت بھی ہوا کہ یہ غزل اس پیٹرن پر ہے۔

    یعنی مفعول کے پیڑن پر یہ ٹکڑا پورا اتر رہا ہے، یہ کیا کہ، یعنی مف عو ل، یہ کا کِ و علی ہذا القیاس۔

    اب ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے کہ حروف کیوں گرائے جاتے ہیں۔ تین حروفِ علت ہیں، الف، واؤ، اور یے، یہ جب کسی لفظ کے آخر میں ہوتے ہیں ان کو عروض میں گرایا جا سکتا ہے اور باقی رہنے والے حرف پر صرف حرکت رہ جاتی ہے، جیسے کا سے کَ، کو سے کُ، کی سے کِ، نوٹ کریں کہ اس سے تلفظ پر کوئی فرق نہیں آیا لیکن حرف دو حرفی سے یک حرفی میں بدل گیا۔

    اور یہ رعایت ہے عروض میں کہ جہاں شعر میں بحر کا وزن پورا کرنے کیلیے دو حرفی کی ضرورت ہے تو اسے دو حرفی سمجھا جائے اور جہاں یک حرفی کی ضرورت ہے وہاں یک حرفی سمجھا جائے۔

    شاعر کو اس سے سہولتے میسر آتی ہے اور تقطیع کرنے کا یہ کام بن جاتا ہے کہ وہ تقطیع کرتے ہوئے اس مقام کی نشاندہی کرے جہاں شاعر نے اپنی اس "پاور" کو استعمال کیا ہے۔

    اب یہ بھی دیکھیں کہ اس خاکسار نے 'کیا' کو 'کا' لکھا ہے تقطیع کرتے ہوئے، اسکی وجہ یہ کہ ہندی الفاظ کے درمیان میں کچھ حرفِ علت ایسے ہوتے ہیں جنکی آواز بہت دب کر نکلتی ہے (عروض کے صوت اور صوتیات سے بھی گہرا تعلق ہے) اور کھینچ کر نہیں پڑی جاتی، جیسے کیا میں اسکے مقابل 'کِیا' بمطلب کرنے میں یے کی آواز کھینچ کر نکل رہی ہے۔

    دب کر نکلنے والی آواز کے حرف کو ہندی میں 'ادھا اکھر' کہا جاتا ہے اور عروض میں اسکا کوئی وزن نہیں لیا جاتا۔ یاد رہے کہ یہ اصول ہے اور یہ شاعر کی صوابدید پر نہیں ہے کہ جہاں چاہے یے کو گرا دے اور جہاں چاہے اس کو حساب میں لے لے، عروض میں اسے محسوب کرنا کہتے ہیں۔

    عروض کی بنیاد پیٹرن پر ہے اور اگر اس پیٹرن کی کنجی یا کلید یا 'کی' کی سمجھ آ گئی تو یہ علم پانی ہو گیا، اشاری نظام میں یہ فائدہ ہے کہ ریاضی سے لگاؤ رکھنے والے افراد اس کو نہ صرف آسانی سے سمجھ لیتے ہیں بلکہ مشق سے اس پر عبور بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ اور اسی کلید کے بعد ادق سے ادق کتاب بھی اپنے اسرار کتاب قاری پر کھولتی چلی جاتی ہے۔

    امید ہے کچھ وضاحت ہو گئی ہوگی، دراصل یہ ایک طولانی اور تفصیل طلب موضوع ہے بہرحال کسی بھی وضاحت کیلیے یہ خاکسار ہمہ وقت حاضر ہے۔

    ReplyDelete
  4. یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے بلاگ سپاٹ کا کہ میں اپنے تبصرے بھی ایڈٹ نہیں کر سکتا، خیر اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں۔ اوپر مفعول کی علامتیں آگے پیچھے ہو گئی ہیں، تقطیع میں صحیح ہیں۔

    جعفر صاحب شیزان کی بوتل بہتر یا وہ بوتل جس کو کوئی ہاتھ ہی نہ لگائے، اختصار کی وجہ بنیادی طور پر یہی ہے کہ میرے خیال یا تجربے کے مطابق قاری طویل تحاریر کو پڑھتے نہیں اور یہ بھی کہ اسطرح تحریریں غیر دلچسپ بھی ہو جاتی ہیں لیکن میری مکمل کوشش یہی ہوتی ہے کہ بنیادی معلومات بہرحال اس میں موجود ہوں۔

    علم عروض کے حوالے سے یہ خاکسار ہمہ وقت حاضر ہے اور عروض کیلیے اس پر مطالعہ بہت ضروی ہے چاہے ایک بار یا دو بار یا تین بار یا بیس بار پڑھنے سے بھی سمجھ نہ آئے۔

    اس موضوع پر میری بنیادی تحریرات اردو محفل فورم کے زمرے 'اصلاحِ سخن' میں ہیں اگر آپ وہ پڑھ سکیں، خاص طور 'براہِ کرم تقطیع کر دیں' موضوع میں کہ اس میں بہت بنیادی باتیں زیرِ بحث آئی ہیں، ربط یہ ہے۔

    http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=11003

    ReplyDelete
  5. اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
    اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
    یہ شعر مجھے بہت پسند ہے وہسے تو پوری غزل لاجواب ہے ۔ باقی بلاگ کو پڑھنے کے لیے دماغ کو ہر قسم کی سوچ سے خالی ہونا ضروری ھے ۔ کیونکہ سمجھ کر پڑھنا لازمی ہے ۔ اس لیے کہ اتنی خوبصورتی اور محنت سے لکھا گیا ہے ۔ وارث صاحب جب بھی کچھ لکھتے ہیں ۔ تو اس میں سیکھنے کو اتنا کچھ ہوتا ہے ۔ جس سے اردو سے محبت صاف صاف ظاہر ہوتی ھے۔ وارث صاحب یہاں ایک بات کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ اسان اردو میں لکھا کریں کہ میری طرح بہت سے ایسے خواتیں و حضرات ہیں ، جو ابھی ادنی جماعت میں داخل ہوئے ہیں ۔

    ReplyDelete
  6. صوفی غلام مصطفٰی تبسم نے تو درسی کتابوں کی نظموں سے ہی گرویدہ بنا لیا تھا۔۔ اور بچوں کے ادب کے لیے تو ان کی خدمات پر بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔۔ آپ کی تحاریر کی مقصدیت اور ادب کے حوالے سے اس پرفتن دور میں ایسے کام کا بیڑا اٹھانا بھی میرے نزدیک انتہائی قابل قدر خدمت ہے۔

    افضل صاحب کے سوال اور اس کے جواب میں‌ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بہت اہم ہے۔۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر اس کو ایک بلاگ پوسٹ‌کی صورت میں شائع کردیا جائے تو ہمارے جیسے طالب علموں کا بھلا ہو۔

    ReplyDelete
  7. بہت شکریہ تانیہ صاحبہ اور راشد صاحب۔
    تانیہ صاحبہ سب سے پہلے تو خوشی کی یہ بات کہ آپ اپنے نام سے تبصرہ کرنے میں کامیاب ہو ہی گئیں آخر، اور دوسرا یہ کہ پوسٹ میں تو ایسی کوئی مشکل بات نہیں تھی ہاں تبصرے میں ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ یہ موضوع ہی ایسا ہے۔
    راشد صاحب، ذرہ نوازی ہے آپ کی برادرم، بہت شکریہ، دراصل علم عروض پر لکھنے کا کافی دیر سے ارادہ ہے لیکن بس کچھ سستی اور کچھ عدیم الفرصتی کی وجہ سے رہ جاتا ہے، لیکن انشاءاللہ لکھنے کی کوشش کرونگا۔

    ReplyDelete
  8. جناب محمد وارث صاحب۔۔
    مزاج گرامی

    آپ کے بلاگ پہ بہت عرصے سے رجسٹر ہونا چاہتا ہوں لیکن کافی سر پھٹول کے بعد بھی ایسا کوئ فیلڈ نہیں مل سکا جہاں جا کے رجسٹر ہوا جا سکے۔۔ براہ مہربانی راہنمائ فرمائیں۔۔
    خیر اندیش۔۔
    فیس بک سے آپ کا دوست، نعیم۔۔

    ReplyDelete
  9. شکریہ نعیم صاحب، میں دیکھتا ہوں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے لیکن یونہی بہتر ہے کہ کم از کم آپ تشریف تو لاتے رہیں گے اسی بہانے۔
    :)

    ReplyDelete
  10. بہت عمدہ شراکت۔ شکریہ

    ReplyDelete