Oct 11, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم - تنہائی

“پیامِ مشرق” سے علامہ اقبال کی یہ نظم مجھے بہت پسند ہے، علامہ نے انسان کی (ابھی تک کی) ازلی تنہائی کو اپنے مخصوص دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔

تنہائیبہ بحر رَفتَم و گُفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طَلَب استی چہ مشکلے داری؟
ہزار لُولُوے لالاست در گریبانَت
درونِ سینہ چو من گوھرِ دِلے داری؟
تَپید و از لَبِ ساحِل رَمید و ہیچ نَگُفت
(میں سمندر پر گیا اور بیتاب، بل کھاتی ہوئی لہر سے پوچھا، تُو ہمیشہ کسی طلب میں رہتی ہے تجھے کیا مشکل درپیش ہے؟ تیرے گریبان میں ہزاروں چمکدار اور قیمتی موتی ہیں لیکن کیا تو اپنے سینے میں میرے دل جیسا گوھر بھی رکھتی ہے؟ وہ تڑپی اور ساحل کے کنارے سے دور چلی گئی اور کچھ نہ کہا)۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal
بہ کوہ رَفتَم و پُرسیدَم ایں چہ بیدردیست؟
رَسَد بگوشِ تو آہ و فغانِ غم زدئی؟
اگر بہ سنگِ تو لعلے ز قطرۂ خون است
یکے در آ بَسُخن با مَنِ ستم زدئی
بخود خَزید و نَفَس در کَشید و ہیچ نَگُفت
(میں پہاڑ پر گیا اور اس سے پوچھا، یہ کیا بیدردی ہے، (تیری اتنی اونچائی ہے کہ) کیا کبھی تیرے کان تک کسی غم زدہ کی آہ و فخان بھی پہنچی ہے؟ اگر تیرے بے شمار قیمتی پتھروں میں میرے دل جیسا کوئی لعل ہے تو پھر ایک بار مجھ ستم زدہ سے کوئی بات کر۔ وہ اپنے آپ میں چھپا، سانس کھینچی اور کچھ نہ کہا)۔

رَہِ دَراز بَریدَم ز ماہ پُرسیدَم
سَفَر نصیب، نصیبِ تو منزلیست کہ نیست
جہاں ز پرتوِ سیماے تو سَمَن زارے
فروغِ داغِ تو از جلوۂ دلیست کہ نیست
سوئے ستارہ رقیبانہ دید و ہیچ نَگُفت
(میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے لیکن تیرے اندر جو داغ ہے اسکی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟ اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا)۔

شُدَم بَحَضرَتِ یزداں گُذَشتَم از مہ و مہر
کہ در جہانِ تو یک ذرّہ آشنایَم نیست
جہاں تہی ز دِل و مُشتِ خاکِ من ہمہ دل
چَمَن خوش است ولے درخورِ نوایَم نیست
تَبَسّمے بَلَبِ اُو رَسید و ہیچ نَگُفت
(میں چاند اور سورج سے گزر کر خدا کے حضور پہنچا اور کہا کہ تیرے جہان میں ایک بھی ذرہ میرا آشنا نہیں ہے۔ تیرا جہان دل سے خالی ہے اور میں (مشتِ خاک) تمام کا تمام دل ہوں۔ تیرا دنیا کا چمن تو اچھا ہے لیکن میری نوا کے لائق نہیں کہ میرا کوئی ہمزباں نہیں۔ اسکے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیلی اور اس نے کچھ نہ کہا)۔
———–

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
بہ بحر رَفتَم و گُفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طلب استی چہ مشکلے داری؟
بَ بحر رف - مفاعلن - 2121
تَ مُ گُفتم - فعلاتن - 2211
بَ موجِ بے - مفاعلن - 2121
تابے - فعلن - 22
ہمیشَ در - مفاعلن - 2121
طَلَ بستی - فعلاتن - 2211
چ مشکلے - مفاعلن - 2121
داری - فعلن - 22

متعلقہ تحاریر : اقبالیات, بحر مجتث, پیامِ مشرق, تقطیع, علامہ اقبال, فارسی شاعری

4 comments:

  1. boht khoobsorat...beshak Allah ke siva dil ke raaz ka koi hamraaz nahi ...boht shokrya.

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ وارث بھائی۔ آپ کی بدولت یہ مکمل نظم پڑھنا بھی نصیب ہوگئی۔ عبید انصاری

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ اور نوازش آپ کی انصاری صاحب۔

      Delete