قلتِ سامعین و قارئین کا شور ہر طرف ہے، کسی سے بات کر کے دیکھ لیں، کسی عالم فاضل سے، کسی خطیب مقرر سے، کسی ادیب سے، کسی شاعر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیں، حتٰی کہ کسی بلاگر کا حالِ دل پوچھ لیں، یہی جواب ملے گا کہ جناب اب اچھے قاری یا سامع کہاں ملتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ قارئین اور سامعین کا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
دوسروں تک اپنی آواز پہنچانا اور کچھ نہ کچھ سنانا شاید بہت ضروری ہے، لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر کسی کی اس نقار خانے میں سنی جائے مرزا غالب فرماتے ہیں۔
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
ہاں مرزا کے 'روگ' کچھ ایسے ہی تھے لیکن یہ بھی چنداں ضروری نہیں کہ ہر کسی کا مرزا والا حشر ہی ہو، مولانا رومی علیہ الرحمہ ایسی آواز سنا گئے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن آج تک ہر طرف صاف صاف اور واضح سنائی دیتی ہے، 'مثنوی' کا آغاز اسی سننے سنانے سے کیا ہے اور کیا خوب آغاز کیا ہے، فرماتے ہیں۔
بِشنو، از نَے چوں حکایت می کُنَد
وَز جدائی ہا شکایت می کُنَد
بانسری کی سنو، کیا حکایت بیان کرتی ہے، اور (ازلی) جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے۔
اور داستان سنانے والا، اللہ کا ایک بندہ ایسا گزرا ہے کہ سلطانِ وقت نے اسے ایک ایک شعر کے بدلے ایک ایک اشرفی دینے کا وعدہ کیا اور اس نے چالیس ہزار ایسے اشعار سنائے کہ ابد تک اشرفیوں میں تلتے رہیں گے۔ لیکن وائے اس شاہ پر کہ اپنے وعدے سے مکر گیا اور سونے کی اشرفیوں کو چاندی کے سکوں سے بدل دیا، خود دار فردوسی نے سلطان محمود غزنوی کی اس وعدہ خلافی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، 'شاہنامہ' کو بغل میں دابا اور اسکے پایہ تخت سے بھاگ گیا۔ 'زود پشیماں' سلطان کو سالہا سال کے بعد احساس ہوا اور جب اس شاعرِ بے مثال کے شہر پہنچا تو اسکے گھر چالیس ہزار اشرفیاں لیکر حاضر ہوا لیکن درویش شاعر دنیا سے کوچ کر چکا تھا، خوددار باپ کی خوددار بیٹی نے سلطان سے اشرفیاں لینے سے بھی انکار کر دیا۔
سلطان کی یہ ناگفتنی کہانی بھی ہمیشہ سنائی جاتی رہے گی لیکن کہاں دنیا کا سلطان اور کہاں اقلیم سخن کا فرمارواں، فردوسی پورے جوش و جذبے سے فرماتے ہیں
ع- دگرہا شنیدستی ایں ھَم شَنَو
دیگر تو بہت کچھ سن چکے اب یہ بھی سنو۔
خیر کہاں یہ بزرگ 'بزورِ بازو' سنانے والے کہ اتنا زورآور قلم کسی کو ہی نصیب ہوا ہوگا اور کہاں ہم جیسے طفلانِ مکتب جو کسی کا یہ شعر گنگنا کر ہی دل خوش کر لیتے ہیں۔
وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا آج کہانی اپنی
اب سننے سنانے کی بات 'پرانی کہانیوں' تک پہنچ ہی گئی ہے تو اس طفلِ مکتب کی ایک رباعی بھی سن لیں جو کچھ سال پرانی ہے اور میری پہلی رباعی ہے۔
بکھرے ہوئے پُھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سُن لے
سنایا تو ظاہر ہے اپنے آپ کو ہی ہے، ہاں اگر کسی قاری کو لگے کہ ان کو سنا رہا ہوں تو انہیں مبارک باد کہ ابھی تک جوان ہیں یا کم از کم اپنے آپ کو جوان سمجھتے ہیں۔
Sep 3, 2011
یہ بھی سُنو ۔۔۔۔۔۔
متعلقہ تحاریر : محمد وارث,
میری تحریریں,
میری شاعری
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
قبلہ! ہمیں جوان ہونے کا جھوٹا ہی سہی مگر مژدہ سنا کر اس کم بخت جوانی کی یاد دلا دی جو شاید کبھی آئی ہی نہیں
ReplyDeleteلٹیرے بھی کبھی اپنے وعدے پورے کیا کرتے ہیں۔
ReplyDeleteاور صاحب جوانی تو کیفیت دل کا نام ہے نہ کہ جسمانی حالت کا۔ ہم نے 20 سال کے بوڑھے بھی دیکھے ہیں اور 80 سال کے جوان بھی۔
شکریہ فاتح صاحب اور جعفر صاحب۔ جوانی کافی حد تک ایک ذہنی کیفیت ہے لیکن بہرحال عمر کا عنصر بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا کیا کہ خود آج کل اسی 'کشمکش' میں ہوں :)
ReplyDeleteسلام
ReplyDeleteوارث صاحب! آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ جسے دیکھو یہی گلہ ہے کہ " سنتا کون ہے؟"۔ ۔ ۔
خیر آپ کی بات تو ہم ہمیشہ ہی ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں کہ آپ سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا رہتا ہے۔ ۔ ۔
پہلی بات یہ کہ بالکل بالکل اعلٰی اور خالص ادبی قسم کی تحریر ہے، جعفر کی لٹیروں سے متعلق بات بالکل درست ہے مسلم حکمران علم دوست نہیں جمال پسند رہے ہیں، دھوکہ جن کا شیوہ ہے
ReplyDeleteدوسری درخواست یہ کہ مجھے فارسی سکھا دیں
تیسری بات جعفر سے پوچھنی ہے کہ " اپنے جواب کا دوسرا حصہ تفصیل سے بیان کریں"۔
صاحب کیا ہی خوبصورت تحریر ہے۔ آپ کے طرز تحریر پر ایک شعر یاد آگیا کہ
ReplyDeleteمیرے سخن کا قرینہ ڈبو گیا مجھ کو
کہ جس کو حال سنایا اسے فسانہ لگا
قلت سامعین، ناظرین اور قارئین کا درد تو ایک عام انسان سے لے کر بڑی بڑی میڈیا کارپوریشنز تک کو لاحق ہے۔ اور جب سامع میسر آجاتا ہے تو بقول فیض ’ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد‘ والی صورتحال کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اس لیے دل کو بہلانے کو غالب یہی کہا کرتے تھے کہ کچھ باتیں ان کہی رہنے دو۔
آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ کہ کوئی اچھی اور سچی بات سننے کو تیار نہیں ہے ۔ اگر انکے سامنے حق اور سچائی کے بارے میں زکر بھی کیا جائے تو یوں مسکرائے گا ۔ کہ اگر پاگل نہیں دیکھا تو اس کو دیکھ لو ۔ کیا بے تکی باتیں کر رہا ہے ۔ یا رہی ہے ۔اور انسان اپنے دل میں یہی سوچتا رہ جاتا ہے ۔ کہ کون سی راہ غلط ہے ۔
ReplyDeletetania rehman post jati he nahi
:mrgreen:
ReplyDelete:؛ڈفر:: میرے تبصرے سے متفق ہونے کا شکریہ۔۔۔ سب گدھوں کی سوچ ایک جیسی ہوتی ہے۔۔۔
:lol:
لیجیے تفصیل حاضر ہے۔۔۔ 80 سال کے جوانوں میں منیر نیازی، اشفاق احمد، احمد فراز وغیرہ۔۔۔ جو اپنی آخری سانس تک زندگی بھرپور طریقے سے جئے۔ جوانی، جینے سے ہی نکلا ہے (میرا اپنا خیال ہے ) تو جو بھی اپنی زندگی بھرپور جیتا ہے وہ جوان ہے۔ اور مرتے دم تک جوان رہے گا۔ اور جو ایسی سوچ نہیں رکھتا وہ بوڑھا ہے چاہے وہ 20 سال کا ہو یا 15 کا۔۔۔
:wink:
ہر بات ہر دور اچھی نہیں لگتی ۔ آپ اپنے ماضی پر نظر ڈالئے ۔ کئی ایسی باتیں اور واقعات ہوں گے جنہیں سن کر یا دیکھ کر آپ کھلکھلا کر ہنسے ہوں گے اور اب آپ سوچیں گے کہ آپ ہنسے کیوں تھے ۔
ReplyDeleteکچھ لوگوں کو اللہ نے یہ خاصیت عطا کی ہوتی ہے کہ ان کی کہی بات ہر وقت ہ دور میں اچھی لگتی ہے ۔
اتفاق سے پچھلی ایک دہائی بے ہنگم گانے والوں اور بے تُکے لطیفہ بازوں کا دور رہا ہے ۔ اب کچھ تبدیلی کے آثار ہیں ۔
شکریہ عین لام میم۔
ReplyDeleteڈفر، جمال پرستی بھی شاید علم دوستی کی ایک قسم ہے اور یوں بھی نہیں کہ تمام مسلم حکمران علم دوست نہیں تھے، کچھ تھے بھی، ہاں جنگجو وہ سارے ہی تھے، اور یہ کہ بھائی فارسی تو مجھے خود بھی نہیں آتی تو سکھاؤں کیا۔
راشد صاحب حالِ دل تک خوب پہنچے آپ، اور شعروں کا انتخاب مجھے رسوا کر گیا :)
تانیہ رحمان صاحبہ مجھے افسوس ہوا کہ آپ کو تبصرہ کرتے ہوئے مشکل کا سامنا کرنا پڑا، اور بلاگ پر خوش آمدید، نوازش آپ کی۔
اجمل صاحب، بجا فرمایا آپ نے محترم۔
اصل توحید ہستی ہم ہیں خدا پاسباں ہمارا
ReplyDeleteہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا
اس امید پر آ پ سے پوچھ رہا ہوں کہ مجھے قوی امید ہے آپ کو پتا ہو گا یہ کس کا شعر ہے؟
نہیں بھائی مجھے علم نہیں کہ یہ دُرِ نایاب کن کا ہے
ReplyDeleteوارث بھائی!
ReplyDeleteیہ تحریر آج دیکھی ہے. ٹھیک کہا آپ نے ہم سب کو اچھے سامع کی تلاش رہتی ہے کیونکہ ہم کہنا چاہتے ہیں، سننا نہیں چاہتے.
بجا فرمایا آپ نے احمد صاحب۔
ReplyDelete