شعراء اور اُدَبا کرام کی لطیف اور دلچسپ باتوں، اور واقعات، کتب سے دلچسپ اقتباسات وغیرہ کے حوالے سے ایک مستقل سلسلہ "نوائے سروش" کے عنوان سے شروع کر رہا ہوں۔
------
مولانا عبدالرحمٰن جامی مشہور فارسی شاعر اور صوفی بزرگ تھے اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ صوفی منش لوگ بھی انکی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ ایک مہمل گو شاعر جس کا حلیہ صوفیوں جیسا تھا، انکی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سفرِ حجاز کی طویل داستان کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے دیوان سے مہمل شعر بھی سنانے لگا، اور پھر بولا۔
"میں نے خانہٴ کعبہ پہنچ کر برکت کے خیال سے اپنے دیوان کو حجرِ اسود پر ملا تھا۔"
یہ سن کر مولانا جامی مسکرائے اور فرمایا۔
"حالانکہ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ تم اپنے دیوان کو آبِ زم زم میں دھوتے۔"
--------
ایک شخص نے سر سید کو خط لکھا کہ "میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ ہیں، جن کی لوگ تعریف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کی ساری عمر قوم کی خیر خواہی اور بھلائی میں گزری، جب میری آنکھ کھلی تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ بزرگ آپ ہی ہیں، پس میری مشکل اگر حل ہوگی تو آپ ہی سے ہوگی۔"
سرسید نے اسے جواب لکھا کہ "جس باب میں آپ سفارش چاہتے ہیں اسکا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جس کو آپ نے خواب میں دیکھا تھا وہ غالباً شیطان تھا"۔
--------
کنور مہندر سنگھ بیدی جن دنوں دہلی کے مجسڑیٹ تھے، ان کی عدالت میں چوری کے جرم میں گرفتار کئے گئے ایک نوجوان کو پیش کیا گیا۔
کنور صاحب نے نوجوان کی شکل دیکتھے ہوئے کہا۔
"میں ملزم کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ہتھکڑیاں کھول دو، یہ بیچارہ تو ایک شاعر ہے، شعر چرانے کے علاوہ کوئی اور چوری کرنا اسکے بس کا روگ نہیں۔"
-----
"ایک شخص نے آپ [شاہ عبدالعزیز فرزند شاہ ولی اللہ] سے مسئلہ پوچھا کہ مولوی صاحب، یہ طوائف یعنی کسبی عورتیں مرتی ہیں تو انکے جنازے کی نماز پڑھنی درست ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ جو مرد انکے آشنا ہیں، انکی نمازِ جنازہ پڑھتے ہو یا نہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں پڑھتے ہیں۔ حضرت نے کہا تو پھر انکی بھی پڑھ لیا کرو۔"
(بحوالہ رودِ کوثر از شیخ محمد اکرام)
-----
مرزا غالب نے ایک کتاب "قاطع برہان" لکھی، اسکا جواب اکثر مصنفوں نے دیا، ان میں سے بعض کے جواب مرزا نے بھی لکھے اور ان میں زیادہ تر شوخی اور ظرافت سے کام لیا لیکن مولوی امین الدین کی کتاب "قاطع قاطع" کا جواب مرزا نے کچھ نہیں دیا کیونکہ اس میں فحش اور ناشائستہ الفاظ کثرت سے لکھے تھے۔
کسی نے کہا۔ "حضرت آپ نے اس کا کچھ جواب نہیں لکھا۔"
مرزا نے جواب دیا۔ "اگر کوئی گدھا تمھارے لات مار دے تو کیا تم بھی اس کے لات مارو گے؟"
------
جوش ملیح آبادی کے صاحبزادے سجّاد کی شادی کی خوشی میں ایک بے تکلف محفل منقعد ہوئی جس میں جوش کے دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ انکے جگری دوست ابن الحسن فکر بھی موجود تھے۔
ایک طوائف نے جب بڑے سُریلے انداز میں جوش صاحب کی ہی ایک غزل گانی شروع کی تو فکر صاحب بولے:
"اب غزل تو یہ گائیں گی، اور جب داد ملے گی تو سلام جوش صاحب کریں گے۔"
--------
Sep 26, 2011
نوائے سروش
متعلقہ تحاریر : طنز و مزاح,
نوائے سروش
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
بہت خوب وارث صاحب، پڑھ کر بہت حظ اٹھایا، پھکڑ پن کے اس دور میں ادبا کے شریفانہ و ظریفانہ لطائف کا سلسلہ شروع کرنے کا شکریہ۔
ReplyDeleteعبدالرحمٰان جامی، اور مہندر سنگھ بیدی والی باتیں زیادہ پسند آئیں۔۔۔ اچھا سلسلہ شروع کیا آپ نے۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔
ReplyDeleteاب سمجھ نہیں آتی بندہ کیا کرے۔۔۔ عروض والوں کی مان لیں تو بقلم خود شعراء کی صف سے خارج، اور نہ مانیں تو اور بہت سی فارغ عوام بھی شاعر قرار پاتی ہے۔۔۔ عجیب کنفیوزن سی بن گئی ہے۔۔۔
بہت شکریہ عدنان مسعود صاحب۔
ReplyDeleteنعیم صاحب، آپ نے جس طرف اشارہ کیا ہے اس کو ایک مثال سے بیان کرتا ہوں۔ ایک مستند اور کامیاب ڈاکٹر بننے کیلیے مکمل تعلیم، ڈاکٹری کے اصولوں کا مطالعہ اور پابندی اور تجربہ و مشاہدہ و مہارت چاہیئے۔ اگر ان شرائط کو ہٹا کر ہر کسی کو مریضوں کا علاج کرنے کی اجازت دے دی جائے تو مریضوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہی اصول شاعری کا ہے، اگر مطالعہ و مہارت و تحربہ و رموز فن اور اصولِ شاعری کی شرائط کے بغیر شاعر شعر کہے تو پھر شعر کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔
والسلام
بہت خوب وارث بھائی!
ReplyDeleteبہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے، بہت لطف آیا.
بہت شکریہ احمد صاحب
ReplyDeleteبہت زبردست اللہ اۤپ کو مزید لکھنے کا موقع دے
ReplyDeleteReed Online
نوازش آپ کی محترم۔
Delete