وہ فقیرِ راہ نشیں، جسے فیض نے شاہِ گدا نما کہا تھا، 21 اپریل 1938ء کو اقلیم سخن کو یتیم کر گیا۔ وہ اقلیمِ سخن کہ جس نے، نہ اُس سے پہلے اور نہ اُس سے بعد، ایسا صاحبِ دل اور دلربا شہر یار دیکھا۔ شعراء آئے اور چلے گئے، کچھ حیاتِ جاوید کی آرزو میں مر گئے، کچھ حیاتِ جاوید پا گئے اور کچھ حیاتِ جاوید دے گئے، علامہ حیاتِ جاوید دینے والوں میں سے ہیں۔ اگر وہ کچھ اور تخلیق نہ کرتے اور دنیا کو فقط 'جاوید نامہ' ہی دیا ہوتا تو پھر بھی خاکسار کا یہ دعویٰ بے دلیل کے نہ ہوتا کہ علامہ خود فرما گئے جاوید نامہ کے بارے میں۔
آنچہ گفتم از جہانے دیگر است
ایں کتابِ از آسمانے دیگر است
میں نے یہ جو کچھ کہا ہے (جاوید نامہ میں) وہ کسی اور جہان سے ہے، یہ کتاب کسی اور آسمان سے ہے۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
تھیں چند ہی نگاہیں جو اُس تک پہنچ سکیں
پر اُس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
کسی نے کہا تھا۔
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتَن گر داغ ہائے سینہ ہا
(اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی یہ پرانے قصے بھی پڑھ لیا کر)
اسی شعر کے مصداق علامہ کی برسی کے حوالے سے کچھ پڑھنے اور لکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ علامہ کی بیماری اور انکے آخری دنوں کی روداد انکے مخلتف نیاز مندوں اور انکی صحبت سے فیضیاب ہونے والے خوش قسمت ہم نشینوں کی یادوں میں پڑھنے کو ملی۔ ان میں مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، سیّد نذیر نیازی وغیرہم اور پھر انکے فرزندِ دلبند جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔
سید نذیر نیازی کو علامہ کی خدمت کرنے کا کئی سال تک شرف حاصل رہا، اور علامہ کی چار سالہ طویل بیماری کو کاٹنے میں آپ نے علامہ کا ساتھ دیا۔ آپ کے ذمے علامہ کے کلام کی 'دیکھ بھال' اور اشعار کی ترتیب و تسوید کے ساتھ ساتھ علامہ کیلیے ادویات مہیا کرنا بھی تھا اور 1936ء میں علامہ کے ایماء سے آپ مستقل لاہور ہی منتقل ہو گئے۔ علامہ اقبال نے اپنے شہرہ آفاق انگریزی خطبات کے ترجمے کا کام بھی سید نذیر نیازی کو تفویض کیا تھا اور ترجمہ اپنی نگرانی میں کرواتے تھے بلکہ ترجمے کا نام 'تشکیلِ جدید الٰہیّاتِ اسلامیہ' بھی اقبال نے خود دیا تھا لیکن افسوس کہ علامہ کی علالت کے سبب وہ ترجمہ انکی زندگی میں شائع نہ ہو سکا اور پھر بوجوہ ایک لمبے عرصے تک شائع نہ ہوا، بلآخر 1957ء میں 'بزمِ اقبال' کے اہتمام سے سید نذیر نیازی نے ہی یہ ترجمہ شائع کیا۔
سیّد نذیر نیازی نے علامہ کی علالت اور آخری دنوں کے حالات اپنے ایک طویل مضمون "اقبال کی آخری علالت" میں قلم بند کیے ہیں، اس مضمون کا آخری حصہ، جو 20 اور 21ء اپریل کے دنوں کے واقعات پر مشتمل ہے، اپنے بلاگ کے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ یہ مضمون اقبالیات پر منتخب اور خوبصورت مضامین کی کتاب "اقبالیات کے سو سال" میں سے لیا ہے۔ اس کتاب کا مختصر تعارف یوں ہے کہ 2002ء، پاکستان میں 'سالِ اقبال' کے طور پر منایا گیا تھا اور اقبالیات کے سو سال پورے ہونے کی نسبت سے (کہ اقبال اور ان کے کلام پر سب سے پہلا مضمون 1902ء میں شیخ عبدالقادر نے لکھا تھا) اقبال اکادمی پاکستان نے مذکورہ کتاب شائع کی تھی، اور اسکا دوسرا ایڈیشن طبع 2007ء خاکسار کے زیرِ مطالعہ ہے۔ ایک وضاحت یہ کہ مضمون میں دیئے گئے فارسی اشعار کا ترجمہ اصل مضمون میں نہیں ہے لیکن انکی افادیت کے زیرِ نظر میں نے اشعار کا ترجمہ بھی لکھ دیا ہے۔
"اقبال کی آخری علالت" از سیّد نذیر نیازی سے ایک اقتباس
بلآخر وہ وقت آ پہنچا جس کا کھٹکا مدت سے لگا ہوا تھا۔ 20 اپریل کی سہ پہر کو جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بیرن فلٹ ہائم اور انکے ایک پارسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے اور گوئٹے اور شلر اور معلوم نہیں کس کس کا ذکر تھا، فلٹ ہائم گئے تو چند اور احباب آ گئے جن سے دیر تک لیگ، کانگرس اور بیرونی سیاسیات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ شام کے قریب جب انکے معالجین ایک ایک کر کے جمع ہوئے تو انہیں بتلایا گیا کہ حضرت علامہ کو بلغم میں کل شام سے خون آ رہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی، اس لیے کہ خون دل سے آیا تھا۔ اس حالت میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ شاید وہ آج کی رات جان بر نہ ہو سکیں مگر انسان اپنی عادت سے مجبور ہے، تدبیر کا دامن آخر وقت تک نہیں چھوڑتا۔ قرشی صاحب (حکیم محمد حسن قرشی) نے بعض دوائیں تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موٹر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت راجا صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا گاڑی ہے؟ کہنے لگے، "نہیں مگر کیا مضائقہ ہے ابھی لیے آتا ہوں۔" چونکہ انکی اپنی گاڑی خراب تھی لہذا اتنا کہہ کر راجا صاحب موٹر کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان کی رائے ہوئی کہ کرنل امیر چند صاحب کو بھی مشورے میں شامل کر لیا جائے۔ اس اثنا میں ہم لوگ حضرت علامہ کا پلنگ صحن میں لے آئے تھے، کرنل صاحب تشریف لائے تو انکی حالت کسی قدر سنبھل چکی تھی، مطلب یہ کہ ان کے حواس ظاہری کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ پھر امید بندھ گئی لہذا طے ہوا کہ کچھ تدابیر اس وقت اختیار کی جائیں اور کچھ صبح۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحبان چلے گئے اور ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کو رات کے لیے ضروری ہدایات دیتے گئے۔ اب ہوا میں ذرا سی خنکی آ چکی تھی اس لیے حضرت علامہ بڑے کمرے میں اٹھ آئے اور حسبِ معمول باتیں کرنے لگے۔ دفعتاً انہیں خیال آیا کہ قرشی صاحب غالباً شام سے بھوکے ہیں اور ہر چند کہ انہوں نے انکار کیا لیکن حضرت علامہ، علی بخش سے کہنے لگے کہ ان کے لیے چائے تیار کرے اور نئے بسکٹ جو میم صاحبہ نے بنائے ہیں، کھلائے۔ اس وقت صرف ہم لوگ یعنی قرشی صاحب، چودھری صاحب (چودھری محمد حسین)، سید سلامت اللہ اور راقم الحروف انکی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو یاد فرمایا تو ان سے عرض کیا گیا کہ وہ کام سے گئے ہیں۔ 11 بجے تو اس خیال سے کہ ہم لوگ شاید انکی نیند میں حارج ہو رہے ہیں، چودھری صاحب نے اجازت طلب کی لیکن حضرت علامہ نے فرمایا، "میں دوا پی لوں پھر چلے جائیے گا۔" اسطرح بیس پچیس منٹ اور گزر گئے حتیٰ کہ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لیکر آ گئے۔ حضرت علامہ کو ایک خوراک پلائی گئی مگر اسکے پیتے ہی انکا جی متلانے لگا اور انہوں نے خفا ہو کر کہا، "یہ دوائیں غیر انسانی ہیں۔" انکی گھبراہٹ کو دیکھ کر قرشی صاحب نے خمیرہ گاؤ زبان عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے فوراً سکون ہو گیا۔ اسکے بعد حضرت علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے اور جب شفیع صاحب نے یہ کہا کہ انہیں اوروں کے لیے زندہ رہنا چاہیئے تو فرمایا، "ان دواؤں کے سہارے نہیں۔" اسطرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ بلآخر یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ نیند کی طرف مائل ہیں، ہم نے اجازت طلب کی، انہون نے فرمایا، "بہت اچھا" لیکن معلوم ہوتا ہے انکی خواہش تھی کہ ہو سکے تو قرشی صاحب ٹھہرے رہیں۔ بایں ہمہ انہوں نے اس امر پر اصرار نہیں کیا، اس وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اور کسی کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ آخری صحبت ہوگی جاوید منزل کی۔
ہم لوگ حضرت علامہ کی خدمت سے اٹھ کر آئے ہی تھے کہ راجا صاحب تشریف لے آئے اور آخر شب تک وہیں حاضر رہے۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ کو سکون رہا اور وہ کچھ سو بھی گئے لیکن پچھلے پہر کے قریب بے چینی شروع ہو گئی۔ اس پر انہوں نے شفیع صاحب سے کہا، "قرشی صاحب کو لے آؤ۔" وہ انکے ہاں آئے تو سہی لیکن غلطی سے اطلاع نہ کر سکے۔ شاید 3 بجے کا وقت ہوگا کہ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو طلب فرمایا۔ انکا (راجا صاحب) کا اپنا بیان ہے کہ جب میں حاضر ہوا تو حضرت علامہ نے دیوان علی سے کہا، "تم سو جاؤ البتہ علی بخش جاگتا رہے، اب اسکے سونے کا وقت نہیں۔" اسکے بعد مجھ سے فرمایا، "پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو سامنے آ جاؤ۔" میں انکے متصل ہو بیٹھا، کہنے لگے، "قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھ کر سناؤ، کوئی حدیث یاد ہے؟" اسکے بعد ان پر غنودگی سی طاری ہو گئی، میں نے دیا گل کر دیا اور باہر تخت پر آ بیٹھا۔ راجا صاحب چلے آئے تو ایک دفعہ پھر کوشش کی گئی کہ حضرت علامہ رات کو دوا استعمال کریں مگر انہوں نے سختی سے انکار کر دیا، ایک مرتبہ فرمایا، "جب ہم حیات کی ماہیت ہی سے بے خبر ہیں تو اسکا علم کیونکر ممکن ہے؟" تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب کو پھر ان سے قرشی صاحب کے لانے کے لیے کہا۔ راجا صاحب کہتے ہیں، "میں اس وقت کی حالت کا مطلق اندازہ نہ کرنے پایا تھا، میں نے عرض کیا حکیم صاحب رات دیر سے گئے ہیں شاید ان کو بیدار کرنا مناسب نہ ہو۔" پھر اپنی یہ رباعی پڑھی جو گذشتہ دسمبر میں انہوں نے کہی تھی۔
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟
گذرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے یا نہیں، حجاز سے نسیم دوبارہ آتی ہے یا نہیں، اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا، کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے یا نہیں۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
جس کے آوازے سے لذّت گیر اب تک گوش ہے
وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
21 اپریل کی صبح کو میں سویرے ہی اٹھا اور حسبِ عادت جاوید منزل پہنچ گیا لیکن ابھی پھاٹک میں قدم رکھا تھا کہ راجا صاحب نظر آئے، انکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، میں سمجھا رات کی بے خوابی کا اثر ہے۔ میں انکی طرف بڑھا اور کہنے لگا، رات آپ کہاں تھے؟ آپ کا دیر تک انتظار رہا۔ وہ معلوم نہیں ہاتھ سے کیا اشارہ کرتے ہوئے ایک طرف چلے گئے، پیچھے مڑ کر دیکھا تو قرشی صاحب سر جھکائے ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔ میں نے حضرت علامہ کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کچھ تامل کیا، پھر ایک دھیمی اور بھرائی ہوئی آواز میں انکے منہ سے صرف اتنا نکلا، "فوت ہو گئے"۔
میں ایک لحظے کے لیے سناٹے میں تھا پھر دفعتاً حضرت علامہ کی خواب گاہ کی طرف بڑھا، پردہ ہٹا کر دیکھا تو انکے فکر آلود چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم اور سکون و متانت کے آثار نمایاں تھے۔ معلوم ہوتا تھا وہ بہت گہری نیند سو رہے ہیں۔ پلنگ سے ہٹ کر فرش پر بیٹھ گیا، شاید وہاں کچھ اور حضرات بھی بیٹھے تھے لیکن میں نے نہیں دیکھا۔ ہاں راجا صاحب کو دیکھا وہ انکی پائنتی کا سہارا لیے زار زار رو رہے تھے، ان کو دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کر سکا اور بے قرار ہو کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس اثنا میں حضرت علامہ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح شہر میں پھیل چکی تھی، اب جاوید منزل میں انکے عقیدت مندوں کا ہجوم تھا۔ یہ سانحہ کچھ اس قدر عجلت اور بے خبری میں پیش آیا تھا کہ جو شخص آتا معجب ہو کر کہتا، "کیا ڈاکٹر صاحب، کیا علامہ اقبال فوت ہو گئے؟"۔ گویا انکے نزدیک یہ خبر ابھی غلط تھی حالانکہ وہ گھڑی جو برحق ہے اور جسکا ایک دن ہر کسی کو سامنا کرنا ہے، آ پہنچی تھی۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۔
جنازہ سہ پہر میں 5 بجے کے قریب اٹھا۔ جاوید منزل کے صحن اور کمروں میں خلقت کا اژدہام تھا، معلوم نہیں انکے غم میں کس کس کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور میو روڈ سے شاہی مسجد تک کتنے انسان جنازے میں شریک تھے۔ ہم لوگ لاہور کی مختلف سڑکوں سے گزر رہے تھے، شہر میں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ جدھر دیکھیئے حضرت علامہ کا ہی ذکر تھا۔ جنازہ ابھی راستے میں تھا کہ اخباروں کے ضمیمے، قطعات اور مرثیے تقسیم ہونے لگے۔ دفعتاً خیال آیا کہ یہ اس شخص کی میت ہے جسکا دل و دماغ رفتہ رفتہ اسلام میں اسطرح کھویا گیا کہ اسکی نگاہوں میں اور کوئی چیز جچتی ہی نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی بے حسی اور اغیار کی چیرہ دستی کے باوجود یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا۔
گرچہ رفت از دستِ ما تاج و نگیں
ما گدایاں را بہ چشمِ کم مَبیں
اگرچہ ہمارے ہاتھ سے تاج و نگیں چلا گیا ہے لیکن ہم گداؤں کو کم (حقیر) نظروں سے مت دیکھو۔
معلوم نہیں ساحر افرنگ کی فریب کاریوں نے اسے کس کس راہ سے سمجھایا کہ ملت اسلامیہ کی نجات تہذیب نو کی پرستش میں ہے مگر اسکے ایمان سے لبریز دل میں نبی امّی صلعم کی محبت بے اختیار کہہ اٹھی۔
در دلِ مُسلم، مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰ است
دلِ مسلم میں مصطفیٰ (ص) کا مقام ہے، ہماری آبرو مصطفیٰ (ص) کے نام سے ہے۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ تو بے شک اقبال ہی کا ہے لیکن کیا اقبال کی موت ایک لحاظ سے ہندوستان کے آخری مسلمان کی موت نہیں؟ اس لیے کہ وہ اسلام کا نقیب تھا، رازدار تھا اور اب کون ہے جو علامہ مرحوم کی مخصوص حیثیت میں انکی جگہ لے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مقاماتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں پناہ دے، آمین، ثم آمین۔
اگرچہ بالکل غیر متعلقہ بات ہے
ReplyDeleteلیکن سن لیجئے
سکول کے زمانے میں، میں بھی اقبالیات کا ماہر ہوا کرتا تھا
دسویں میں ریڈیو پاکستان کا اقبال پر ایک ذہنی آزمایش کا مقابلہ جیتا تھا
100 روپے انعام ملا تھا
ابھی تک وہ نوٹ محفوظ رکھا ہوا ہے
اور اس مضمون کی تعریف نہ کرنا ہی بہترہے
کہ آپ کی تحریر تعریف سے بالا تر ہے
اجی واہ آپ نے اب تک نوٹ سنبھال کر رکھا ہے، میں نے تو جب تک خرچ نہیں کر لیا تھا، چین نہیں ملا تھا :)۔
ReplyDeleteمیں بھی ایک غیر متعلقہ بات کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔ ایم اے اردو پرائیوٹ کے زبانی امتحان میں اکثر طلباء سے جب میں سوال کر تا ہوں کہ ان کا پسندہ شاعر کون ہے تو ان کا جواب ہمیشہ اقبال ہوتا وجہ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جو اکلوتا شعر یعنی خودی کو کر بلند اتنا انہیں یاد ہے وہ اسی شاعر کا ہے۔
ReplyDeleteخیر آپ کا مضمون بہت اچھا ہے۔ ۔
بلاگ پر خوش آمدید وہاب اعجاز خان صاحب۔ اور شکریہ تبصرے کیلیے۔
ReplyDeletewaris sahib, ap ka blog dil ko khush karney ka sabab bana.
ReplyDeleteap k liey bhot duaein hein.
بہت شکریہ ملک صاحب، نوازش آپ کی۔
ReplyDelete
ReplyDeleteیادِ رفتگاں: بیادِ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؔ
احمد علی برقیؔ اعظمی
گزرے ہوئے یوں اُن کو ہوئے کتنے مہ و سال
ہر سمت نظر آتے ہیں اقبالؔ ہی اقبالؔ
کب تک رہے یہ ملتِ مظلوم زبوں حال
اب تک نہ ہوا پیدا کوئی دوسرا اقبالؔ
پیتے رہے وہ خونِ جگر اپنا ہمیشہ
ہر وقت انھیں فکر تھی ملت رہے خوشحال
وہ درسِ عمل دیتے تھے اشعار سے اپنے
اُن سا نہ ہوا اہلِ نظر کوئی بھی تاحال
ماضی بھی پسِ پُشت تھا،فردا پہ نظر تھی
تھا ذہن میں اُن کے نہ رہے کوئی بھی بدحال
سب راہِ ترقی پہ رواں اور دواں ہیں
زردار جو ہیں اُن کو ہے بس فکرِ زرو مال
کرتا ہی نہیں درد کا کوئی بھی مداوا
ہے عہدِ رواں اپنے لئے جان کا جنجال
اسلاف سے ہے نسلِ جواں اپنے گریزاں
برقیؔ ہے یہی وجہہ کہ ہم آج ہیں پامال
واہ واہ لاجواب، کیا کہنے۔
Deleteبہت خوب!
ReplyDeleteشکریہ خان صاحب
Delete