کافی غیر شاعرانہ سا عنوان اور کام ہے 'ہجے بنانا یا وزن پورا کرنا'، لیکن یقین مانیے دنیا میں کسی شاعر کا کام اسکے بغیر نہیں چلتا، ہر شاعر اپنی مرضی کے ہجے بناتا ہے اور ان سے وزن پورا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے کہ ہجے دو طرح کے ہوتے ہیں دو حرفی یا ہجائے بلند اور یک حرفی یا ہجائے کوتاہ (ان کو بار بار میں اس لیے لکھتا ہوں کہ یہی کلید ہے علمِ عروض کی اور انہی کی ترتیب ہی وزن ہے اور انہی کے پیٹرن بحریں)، سو ان دو طرح کے ہجوں کے علاوہ بھی کوئی ہجا ہو سکتا ہے، ہوتا نہیں ہے لیکن سمجھا جا سکتا ہے۔ اور یہ شاعروں کی سب بڑی صوابدید ہے کہ وہ متعین اور مخصوص الفاظ کو چند اصولوں کے تحت چاہے تو ہجائے کوتاہ سمجھے یا ہجائے بلند، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔
یہ عمل دو طرح کا ہوتا ہے، ایک یہ کہ آپ کسی ہجائے بلند میں سے کوئی لفظ گرا کر اسے ہجائے کوتاہ بنا لیں اور دوسرا یہ کہ آپ کسی ہجائے کوتاہ پر کوئی حرف بڑھا کر اسے ہجائے بلند بنا لیں۔
دراصل، علمِ عروض میں صوتیات کا بھی بہت عمل دخل ہے، ایک مثال دیکھتے ہیں، لفظ میرَا یعنی مے را یعنی 22، اب اگر اس لفظ کا آخری حرف یعنی الف گرا دیا جائے تو باقی کیا رہے گا، میرَ، اس کو آپ تلفظ ویسے ہی کریں گے جیسے میرا ہے لیکن نوٹ کریں کہ اسکے ہجے کم ہو گئے ہیں پہلے اگر یہ 22 یا دو ہجائے بلند تھا تو اب یہ 2 1 یا ایک ہجائے بلند اور ایک ہجائے کوتاہ ہو گیا ہے، اور اسی کا نام اخفا ہے اور عرفِ عام میں اسے 'گرانا' کہا جاتا ہے۔
اب ایک اور مثال دیکھتے ہیں، مثلاً لفظ 'گُلِ سرخ' اس میں گُلِ کے ہجے یا وزن گُ لِ یا 11 ہے لیکن اس کا تلفظ کیا ہوتا ہے گُ لے یعنی 1 2 اور اب وزن بدل گیا ہے گو تلفظ ہر دو صورتوں میں ایک ہی ہے۔ اس میں شاعر نے یہ کیا کہ لام کی اضافت کو جو کہ اصل میں ایک ے کی آواز نکال رہی ہے کو کھینچ لیا یا بڑھا لیا اور اسے اشباع کہا جاتا ہے۔
اخفا اور اشباع، یہ دونوں ایسے عمل ہیں جن سے دراصل تلفظ پر تو فرق نہیں پڑتا لیکن وزن پر فرق ضرور پڑتا ہے اور اس بات کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ مخصوص قوانین کے تحت مخصوص الفاظ پر اخفا اور اشباع کا عمل کر سکتا ہے اور بحر کے مطابق جہاں اسے ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ کی ضرورت ہو ان کو مطلوبہ ہجا بنا لے۔ یہ ایک ایسی رعایت ہے کہ شاعر حضرات اس کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ناقدین چپ رہتے ہیں کہ تلفظ تو بدلا نہیں اور 'عروضیوں' پر فرض ہوجاتا ہے کہ شاعر کی عظمت کو سلام کریں۔
ان مخصوص قوانین کا قصہ طول طلب ہے مختصراً یہ کہ حروفِ علت یعنی الف، واؤ اور یا کو لفظ کے آخر سے گرایا جا سکتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہائے غیر ملفوظی یعنی وہ ہ جو بولنے میں نہیں آتی جیسے بچہ یا رفتہ یا کشتہ وغیرہ اس کو بھی بلا تکلف گرایا جا سکتا ہے۔ اشباع عموماً تمام اضافتوں میں جائز ہے، تفصیل نیچے آتی ہے۔
ایک بات یہ کہ ہر وہ ہجا جسے کوتاہ یا بلند سمجھا جا سکتا ہے اس کو x سے ظاہر کیا جا رہا ہے، اسے میں نے Prof. Frances W Pritchett کی علمِ عروض پر خوبصورت کتاب A Practical Handbook of Urdu Meter میں دیکھا تھا اور یہ طریقہ انتہائی کارگر اور مفید ہے یعنی x کو آپ 1 یا 2 سے بدل سکتے ہیں۔ اب کچھ وہ الفاظ جن کو گرایا جا سکتا ہے۔
میرا - 2 x
اور بالکل اسی طرح میری، میرے، تیرا، تیری، تیرے۔
مرا - x 1
بالکل اسی طرح مری، مرے، ترا، تری، ترے کا وزن ہے۔
کا، کی، کے سب کا وزن x ہے۔
سے، ہے، ہیں، جو، کو، دو سب کا وزن x ہے۔
کوئی اور ہوئی - xx یعنی چاہے تو دنوں ہجوں کو بلند 22 سمجھیں یا دونوں کو کوتاہ 11 یہ پہلے کو بلند اور دوسرے کو کوتاہ یعنی 2 1 یا پہلے کو کوتاہ اور دوسرے کو بلند یعنی 1 2 سمجھیں۔
ہوا - 1 x
کیسے اور جیسے - 2 x
اور - چاہے تو اسے او،ر یا 2 1 سمجھیں یا فقط 2۔
دروازہ یعنی x22
زندہ - x2
وغیرہ وغیرہ
دراصل ان الفاظ کو سمجھنے میں صرف شروع میں مشکل پیش آتی ہے، جب مشق ہو جاتی ہے تو خود بخود علم ہو جاتا ہے کہ کون سے لفظ کو گرانا ہے اور کس کو نہیں۔
اور کچھ ذکر اشباع یا کسی ہجے کو کھینچ کر اسکا وزن تبدیل کرنے کا۔
سب سے پہلے تو اضافت زیر، ایک مثال اوپر گزری، ایک اور دیکھیئے، شبِ تنہائی اسکا اگر وزن کریں تو
شَ ا، بِ 1، تن2، ہا2، ئی2 یعنی 22211 لیکن اضافت زیر پر اشباع کے عمل سے بِ کو بے سمجھ کر ہجائے کوتاہ کو ہجائے بلند بنا لیا یعنی
شبِ تنہائی x1۔ 222
گویا x کی جگہ شاعر اپنے مطلب کا ہجا لا سکتا ہے۔
اضافت واؤ، جیسے گل و بلبل میں۔ یہ بھی ایک خصوصی اضافت ہے شاعر کی مرضی ہے کہ اس واؤ کا کوئی وزن سرے سے سمجھے ہی نہ یا پچھلے ہجے سے ملا کر ایک بلند ہجا حاصل کر لے یا واؤ کو پیش سے بدل کر پچھلے ہجے کو ہجائے کوتاہ بنا لے یعنی
گل و بلبل
یا
گل بل بل
222
گُ لُ بل بل
2211
یا
گُ لو بلبل
2221
ہمزۂ اضافت کا اصول یہ ہے کہ اسکا وزن تو ضرور ہے لیکن شاعر کی مرضی ہے کہ کوتاہ سمجھے یا بلند۔
فی الحال اس موضوع کو یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ گرمی کچھ کام نہیں کرنے دے رہی، ہاں ایک عملی مثال اسی اپنی پہلے سبق کی بحر بلکہ غالب کی اسی غزل سے۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ غالب نے کہاں کہاں الفاظ گرائے ہیں، چلیں اس شعر کو میں 'حل' کر دیتا ہوں لیکن براہِ مہربانی اس غزل کے دیگر اشعار پر خود مشق ضرور کریں۔
نِ کَل نا خل - 2221 - مفاعیلن
د سے آ دم - 2221 - مفاعیلن
کَ سن تے آ - 2221 - مفاعیلن - کا کا الف غائب
ء ہے لے کِن - 2221 - مفاعیلن - ئے کی ی گم، ہیں کے نون غنہ کا کوئی وزن نہیں۔
ب ہت بے آ - 2221 - مفاعیلن
ب رُو ہو کر - 2221 - مفاعیلن
تِ رے کو چے - 2221 - مفاعیلن، تیرے کو ترے لکھنا غالب کی مجبوری تھی نا کہ کوئی شاعرانہ اپچ۔
سِ ہم نکلے - 2221 - مفاعیلن، سے کی یے کہاں ہے ڈھونڈیے۔
یہ عمل دو طرح کا ہوتا ہے، ایک یہ کہ آپ کسی ہجائے بلند میں سے کوئی لفظ گرا کر اسے ہجائے کوتاہ بنا لیں اور دوسرا یہ کہ آپ کسی ہجائے کوتاہ پر کوئی حرف بڑھا کر اسے ہجائے بلند بنا لیں۔
دراصل، علمِ عروض میں صوتیات کا بھی بہت عمل دخل ہے، ایک مثال دیکھتے ہیں، لفظ میرَا یعنی مے را یعنی 22، اب اگر اس لفظ کا آخری حرف یعنی الف گرا دیا جائے تو باقی کیا رہے گا، میرَ، اس کو آپ تلفظ ویسے ہی کریں گے جیسے میرا ہے لیکن نوٹ کریں کہ اسکے ہجے کم ہو گئے ہیں پہلے اگر یہ 22 یا دو ہجائے بلند تھا تو اب یہ 2 1 یا ایک ہجائے بلند اور ایک ہجائے کوتاہ ہو گیا ہے، اور اسی کا نام اخفا ہے اور عرفِ عام میں اسے 'گرانا' کہا جاتا ہے۔
اب ایک اور مثال دیکھتے ہیں، مثلاً لفظ 'گُلِ سرخ' اس میں گُلِ کے ہجے یا وزن گُ لِ یا 11 ہے لیکن اس کا تلفظ کیا ہوتا ہے گُ لے یعنی 1 2 اور اب وزن بدل گیا ہے گو تلفظ ہر دو صورتوں میں ایک ہی ہے۔ اس میں شاعر نے یہ کیا کہ لام کی اضافت کو جو کہ اصل میں ایک ے کی آواز نکال رہی ہے کو کھینچ لیا یا بڑھا لیا اور اسے اشباع کہا جاتا ہے۔
اخفا اور اشباع، یہ دونوں ایسے عمل ہیں جن سے دراصل تلفظ پر تو فرق نہیں پڑتا لیکن وزن پر فرق ضرور پڑتا ہے اور اس بات کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ مخصوص قوانین کے تحت مخصوص الفاظ پر اخفا اور اشباع کا عمل کر سکتا ہے اور بحر کے مطابق جہاں اسے ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ کی ضرورت ہو ان کو مطلوبہ ہجا بنا لے۔ یہ ایک ایسی رعایت ہے کہ شاعر حضرات اس کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ناقدین چپ رہتے ہیں کہ تلفظ تو بدلا نہیں اور 'عروضیوں' پر فرض ہوجاتا ہے کہ شاعر کی عظمت کو سلام کریں۔
ان مخصوص قوانین کا قصہ طول طلب ہے مختصراً یہ کہ حروفِ علت یعنی الف، واؤ اور یا کو لفظ کے آخر سے گرایا جا سکتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہائے غیر ملفوظی یعنی وہ ہ جو بولنے میں نہیں آتی جیسے بچہ یا رفتہ یا کشتہ وغیرہ اس کو بھی بلا تکلف گرایا جا سکتا ہے۔ اشباع عموماً تمام اضافتوں میں جائز ہے، تفصیل نیچے آتی ہے۔
ایک بات یہ کہ ہر وہ ہجا جسے کوتاہ یا بلند سمجھا جا سکتا ہے اس کو x سے ظاہر کیا جا رہا ہے، اسے میں نے Prof. Frances W Pritchett کی علمِ عروض پر خوبصورت کتاب A Practical Handbook of Urdu Meter میں دیکھا تھا اور یہ طریقہ انتہائی کارگر اور مفید ہے یعنی x کو آپ 1 یا 2 سے بدل سکتے ہیں۔ اب کچھ وہ الفاظ جن کو گرایا جا سکتا ہے۔
میرا - 2 x
اور بالکل اسی طرح میری، میرے، تیرا، تیری، تیرے۔
مرا - x 1
بالکل اسی طرح مری، مرے، ترا، تری، ترے کا وزن ہے۔
کا، کی، کے سب کا وزن x ہے۔
سے، ہے، ہیں، جو، کو، دو سب کا وزن x ہے۔
کوئی اور ہوئی - xx یعنی چاہے تو دنوں ہجوں کو بلند 22 سمجھیں یا دونوں کو کوتاہ 11 یہ پہلے کو بلند اور دوسرے کو کوتاہ یعنی 2 1 یا پہلے کو کوتاہ اور دوسرے کو بلند یعنی 1 2 سمجھیں۔
ہوا - 1 x
کیسے اور جیسے - 2 x
اور - چاہے تو اسے او،ر یا 2 1 سمجھیں یا فقط 2۔
دروازہ یعنی x22
زندہ - x2
وغیرہ وغیرہ
دراصل ان الفاظ کو سمجھنے میں صرف شروع میں مشکل پیش آتی ہے، جب مشق ہو جاتی ہے تو خود بخود علم ہو جاتا ہے کہ کون سے لفظ کو گرانا ہے اور کس کو نہیں۔
اور کچھ ذکر اشباع یا کسی ہجے کو کھینچ کر اسکا وزن تبدیل کرنے کا۔
سب سے پہلے تو اضافت زیر، ایک مثال اوپر گزری، ایک اور دیکھیئے، شبِ تنہائی اسکا اگر وزن کریں تو
شَ ا، بِ 1، تن2، ہا2، ئی2 یعنی 22211 لیکن اضافت زیر پر اشباع کے عمل سے بِ کو بے سمجھ کر ہجائے کوتاہ کو ہجائے بلند بنا لیا یعنی
شبِ تنہائی x1۔ 222
گویا x کی جگہ شاعر اپنے مطلب کا ہجا لا سکتا ہے۔
اضافت واؤ، جیسے گل و بلبل میں۔ یہ بھی ایک خصوصی اضافت ہے شاعر کی مرضی ہے کہ اس واؤ کا کوئی وزن سرے سے سمجھے ہی نہ یا پچھلے ہجے سے ملا کر ایک بلند ہجا حاصل کر لے یا واؤ کو پیش سے بدل کر پچھلے ہجے کو ہجائے کوتاہ بنا لے یعنی
گل و بلبل
یا
گل بل بل
222
گُ لُ بل بل
2211
یا
گُ لو بلبل
2221
ہمزۂ اضافت کا اصول یہ ہے کہ اسکا وزن تو ضرور ہے لیکن شاعر کی مرضی ہے کہ کوتاہ سمجھے یا بلند۔
فی الحال اس موضوع کو یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ گرمی کچھ کام نہیں کرنے دے رہی، ہاں ایک عملی مثال اسی اپنی پہلے سبق کی بحر بلکہ غالب کی اسی غزل سے۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ غالب نے کہاں کہاں الفاظ گرائے ہیں، چلیں اس شعر کو میں 'حل' کر دیتا ہوں لیکن براہِ مہربانی اس غزل کے دیگر اشعار پر خود مشق ضرور کریں۔
نِ کَل نا خل - 2221 - مفاعیلن
د سے آ دم - 2221 - مفاعیلن
کَ سن تے آ - 2221 - مفاعیلن - کا کا الف غائب
ء ہے لے کِن - 2221 - مفاعیلن - ئے کی ی گم، ہیں کے نون غنہ کا کوئی وزن نہیں۔
ب ہت بے آ - 2221 - مفاعیلن
ب رُو ہو کر - 2221 - مفاعیلن
تِ رے کو چے - 2221 - مفاعیلن، تیرے کو ترے لکھنا غالب کی مجبوری تھی نا کہ کوئی شاعرانہ اپچ۔
سِ ہم نکلے - 2221 - مفاعیلن، سے کی یے کہاں ہے ڈھونڈیے۔
متعلقہ تحاریر : تقطیع,
علم عروض
سبحان اللہ استاد جی سبحان اللہ۔۔۔
ReplyDeleteآپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں؟؟؟
کل ہی سوچ رہا تھا کہ آپ کو میل کروں گا۔۔۔۔ لیکں استاد ہو تو آپ جیسا کہ شاگردوں کے دل کی بات جان جائے۔۔۔
بہت شکریہ۔۔۔۔
ارے کہاں کی استادی قبلہ، ہاں یہ وہی سوال ہیں جن سے کوئی اڑھائی تین سال پہلے میں ‘جُھوج‘ رہا تھا :)
ReplyDeleteنگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
ReplyDeleteوہی قرآں وہی فر قاں وہی یاسیں وہی طٰہٰ
نگاہے عش ۔2221 ۔ مفا عیلن ۔ ہ میں اشبا ع ہوا ہے
ق و مستی مے ۔2221 ۔ مفاعیلن ۔ اضافت کی واؤ ہے جس کا حضرتِ علامہ نے کوئی وزن نہیں سمجھا
وہی اول ۔2221 ۔ مفاعیلن
وہی آخر ۔2221 ۔ مفاعیلن
وہی قرآں ۔2221 ۔ مفاعیلن
وہی فرقاں ۔2221 ۔ مفاعیلن
وہی یاسی ۔2221 ۔ مفاعیلن
وہی طا ہا ۔2221 ۔ مفاعیلن
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
عقا بی رو ۔2221 ۔ مفا عیلن ۔
ح جب بیدا ۔2221 ۔ مفاعیلن ۔
رہو تی ہے ۔2221 ۔ مفاعیلن
جوا نو مے ۔2221 ۔ مفاعیلن
نظر آ تی ۔2221 ۔ مفاعیلن
ہَ ان کو اپ ۔2221 ۔ مفاعیلن ۔ ہے میں اخفاء ہوا ہے
نِ منزل آ ۔2221 ۔ مفاعیلن ۔ نی میں ی اخفاء کی وجہ سے ساقط ہے
سما نو مے ۔2221 ۔ مفاعیلن
الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
الا ہی تے ۔2221 ۔ مفاعیلن
رچو کھٹ پر ۔2221 ۔ مفاعیلن ۔ تیری میں اخفاء ہوا ہے
بھکاری بن ۔2221 ۔ مفاعیلن
کِ آیا ہو ۔2221 ۔ مفاعیلن ۔ کے کی ے گری ہے
سراپا فق ۔2221 ۔ مفاعیلن
رہو عجزو ۔2221 ۔ مفاعیلن واؤ اضافت کو شاعرنے ہجائے بلند کیلیے استعمال کیا ہے
ندامت سا ۔2221 ۔ مفاعیلن
تھ لا یا ہو ۔2221 ۔ مفاعیلن
ماشاءاللہ باسم، آپ نے سبھی اشعار کی تقطیع نہ صرف صحیح کی ہے بلکہ اخفا اور اشباع کو بھی پہچاننا شروع کر دیا ہے، لاجواب۔ اراکین اور کچھ بحور کے تعارف کے بعد جو جلد ہی انشاءاللہ لکھوں گا آپ اس علم پر کافی حد تک عبور حاصل کر لیں گے۔
ReplyDeleteآج ہی یہ سارے "سبقوں" کی سیریز پڑھ کے پریکٹس کرتا ہوں
ReplyDeleteاور یہ اسباق پرنٹ کر کے گھر والوں کو بھی پڑھاتا ہوں
کیا پتا کوئی اور بھی متوجہ ہو جائے
بھائی علامہ اقبال کا ایک شعر ھے جو سمجھ میں نہیں آ رہا کے وژن میں کیسے ھے
ReplyDelete"خوش آ گئی ھے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر میرا کیا ھے شاعری کیا ھے "
مہربانی کر کے کچھ میری اصلاح کر دیں
جی یہ شعر بحر مجتث میں ہے جس کے افاعیل ہیں
Deleteمفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
علامتی نظام میں
22 2121 2211 2121
تقطیع
خوش آ گئی ھے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ھے شاعری کیا ھے
خُ شا گئی - مفاعلن - الف کا وصال نوٹ کریں
ہ جہا کو - فعلاتن
قلندری - مفاعلن
میری - فعلن
وگرنہ شع - مفاعلن
ر مرا کا - فعلاتن
ہ شاعری - مفاعلن
کا ہے - فعلن
بحر مجتث کی دیگر امثال
http://www.muhammad-waris.blogspot.com/search/label/%D8%A8%D8%AD%D8%B1%20%D9%85%D8%AC%D8%AA%D8%AB
ش اور آ کو ملایا کیوں ہے بھائی؟؟؟؟؟؟؟؟
Deleteاس طرح تو آپ نی ش کو حرکت میں لا تو لیا پر الف تو سکوں میں چلا گیا نہ ......یہ کس قاعدے ک تحت کیا ھے آپ نے؟؟؟؟؟؟؟؟
اس کو الف کا وصال کہتے ہیں، اس بلاگ پر اس کی کافی تفصیل موجود ہے۔
Deleteاستاد جی ایک علامہ اقبال کا شعر جو یوں ہے
Deleteآدب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اس کی سمجھ نہیں آئی یہ سمجھا دیں مہربانی کرکے
بھائی پلیز مجھے اس پوسٹ کا لنک بتا دیں ..........
ReplyDeleteالف کے وصال یا سقوط کی دو شرطیں ہوتی ہیں۔
Deleteاول، جس الف کو ساقط کرنا ہے اس کے پیچھے حرفِ صحیح ہو، حرفِ علت نہ ہو یعنی الف، واؤ یا ی نہ ہو، ان کے علاوہ کوئی حرف ہو۔
دوسرا، وہ یعنی پیچھے والا حرفِ صحیح ساکن ہو، متحرک نہ ہو۔
اگر یہ دونوں شرطیں پوری ہو رہی ہوں تو الف کو ختم کر کے پچھلے حرف کو اگلے حرف کے ساتھ ملا لیتے ہیں یا ضم کر لیتے ہیں۔
اب مصرع دیکھیں
خوش آ گئی ھے جہاں کو قلندری میری
اس میں آ کے الف کو ساقط کرنے کی تمام شرطیں پوری ہو رہی ہیں سو خوش کی شین کو آ کی ایک الف ساقط کر کے دوسری الف کے ساتھ ملا دیا تو یہ شا ہو گیا۔ واضح رہے کہ الف مد آ میں دو الف ہوتے ہیں سو ایک الف ساقط ہو جاتا ہے۔
اسطرح کا ایک اور شعر، آتش کا
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
کلام اور آتے میں الف کا وصال ہوا ہے۔
bhai ye alif ka wisal zaroori ha ya optional ha????????????
ReplyDeleteجی یہ ضروری نہیں ہے بلکہ شاعر کی صوابدید پر ہے کہ ضرورتِ شعری کے تحت الف کا وصال کروالے۔
Deleteah han....thnxx bhai jan
ReplyDeleteVery nice
ReplyDeleteشکریہ جناب
Delete