تلفظ کی غلطی کوئی بھی کرے، اچھی نہیں لگتی لیکن عموماً اُدَبا و شعراء سے لوگ توقع رکھتے ہیں کہ یہ غلطیاں نہیں کریں گے اور کسی حد تک یہ بات ٹھیک ہے، کیونکہ کوئی بھی زبان ادیبوں اور شاعروں کے ہاتھوں ہی پروان چڑھتی ہے اور وہ ہی اسکے نگبہان بھی ہوتے ہیں۔ ادیبوں یا نثر نگاروں کو شاعروں کے مقابلے میں ایک چھُوٹ یہ ہوتی ہے کہ انکی تحریر کی جانچ ہمیشہ موضوعی یعنی subjective ہوتی ہے لیکن شعراء کے کلام یا منظومے کی ایک جانچ معروضی objective طور پر یعنی دو جمع دو چار کے کُلیے پر ہوتی ہے جسے تقطیع کہا جاتا ہے اور عام ماہرینِ فن کو فوری علم ہوجاتا ہے کہ شاعر نے کسی لفظ کو ادا کرنے میں کہاں غلطی کی ہے جب کہ دوسری طرف کوئی نثر نگار صرف اسی وقت پکڑا جا تا ہے جب وہ اپنی زبان کھولتا ہے۔
تَلَفُّظ کی غلطیاں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن میں کسی حرکت کو غلط ادا کیا جائے جیسے بادَل کہ دال پر زبر ہے، اس کو بادِل دال کی زیر کے ساتھ بول دیا جائے اور دوسری وہ جن میں کسی ساکن حرف کی جگہ متحرک حرف بولا جائے جیسے صبر کہ اس میں بے ساکن ہے کو صبَر بولا جائے یا متحرک کی جگہ ساکن حرف ادا کیا جائے، جیسے غلَط کہ اس میں لام پر زبر ہے کو غلط لام ساکن کے ساتھ بولا جائے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں طرح کی غلطیوں سے کسی منظومے یا شاعر کے کلام پر کیا فرق پڑ سکتا ہے۔
اول حرکت کا بدل دینا، شاعر کو کسی لفظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو یا نہ، یہ غلطی اس وقت تک اسکے سر نہیں جاتی جب تک وہ خود کسی مشاعرے یا ویسے پڑھنے میں غلط تلفظ نہ ادا کرے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وزن دراصل ہجوں کی ترتیب کا نام ہے یعنی ہجائے بلند کی جگہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ، یعنی کسی لفظ کی غلط حرکت ادا کرنے سے اسکے وزن پر فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر لفظ بادل کو ہی دیکھتے ہیں، اسکا صحیح تلفظ بادَل اور وزن 2 2 ہے لیکن اگر کسی شاعر کو اسکے صحیح تلفظ کا علم نہیں ہے اور اس نے اپنی طرف سے اسے 'بادِل' باندھ دیا ہے تو وزن پر پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ یہ بھی 22 ہے۔
لیکن فرض کریں کہ ایک شاعر ایک غزل کہتا ہے جسکے قوافی، محفِل، قاتِل، دِل وغیرہ ہیں، اس میں اگر وہ 'بادِل' غلط تلفظ کے ساتھ قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر اس کیلیے کوئی رعایت نہیں ہے یا بادل، آنچل، جنگل کے ساتھ محفِل کو محفَل سمجھ کر قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر یہ بھی ایک فاش غلطی ہے اور کوئی بھی قاری کسی شاعر سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتا۔
دوسری طرف اگر ساکن اور متحرک کی جگہ بدل دی جائے تو زمین و آسمان زیر و زبر ہو جاتے ہیں، مثلاً صبر، ب ساکن کے ساتھ کا وزن صب،ر یعنی 2 1 ہے لیکن اسے صَ بَر باندھنے سے اسکا وزن 1 2 ہو جائے گا یعنی ہجوں کی ترتیب بدل جائے گی سو وزن نہیں رہے گا اور شاعر چاہے زبان کھولے یا نہ کھولے بہرطور 'پکڑا' جائے گا۔ اسی طرح اگر 'غَلَط' یعنی غَ لَط کو غل،ط باندھا جائے گا تو وزن پھر بدل جائے گا اور شعر پھر بے وزن ہو جائے گا۔
ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، بہت آسان ہے، اوّل تو آپ کے پاس ایک اچھی اردو لغت ہونی چاہیئے جس میں تلفظ واضح کیا گیا ہو، دوسرا یہ کہ جس لفظ کے تلفظ کے بارے میں ذرا بھی شک ہو اس کو اس وقت تک شاعری میں استعمال نہ کریں جب تک اس کی کوئی سند نہ حاصل کر لیں یعنی جب تک اسے معیاری لغت میں نہ دیکھ لیں یا کسی استاد شاعر کے کلام میں تقطیع کر کے اس کا صحیح وزن نہ معلوم ہو جائے۔ ویسے عرض کرتا چلوں کہ تقطیع کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے الفاظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو جاتا ہے کم از کم ساکن اور متحرک حروف کی حد تک۔ رومن حروف میں اردو لکھنے سے مجھے چڑ ہے بلکہ نفرت ہے لیکن اسکا ایک فائدہ ایسا ہے کہ عرصے سے میں اسکا قتیل ہوں اور مستند رومن اردو لکھی ہوئی اگر کہیں مل جائے تو کوشش ضرور کرتا ہوں پڑھنے کی کہ اس سے تلفظ بالکل واضح اور صاف ہو جاتا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو دو چار پیرے اگر رومن اردو میں لکھنے پڑ جائیں تو 'لگ پتا جاتا ہے' کیونکہ اس میں غلطی فوری پکڑی جاتی ہے، مثلا ایک فورم کی ڈومین میں نے alqalm لکھی دیکھی ہے جو کہ سراسر غلط ہے یہ ان کی کوئی 'مجبوری' بھی ہو سکتی ہے لیکن بہرحال اس پائے کے فورم پر ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیئے۔
ایک عام بات جو میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستانی احباب بالعموم اور پنجابی احباب بالخصوص ان مختصر الفاظ کے تلفظ میں غلطی کرتے ہیں جن میں دوسرا حرف ساکن ہے۔
جیسے یہ الفاظ، برف، گرم، نرم، شرم، جُرم، سرد، فرد، مرد، صبر، قبر، جبر، حشر، لطف، حمل، وزن، علم (جاننا)، عقل، عرش، فرش، سبز، سرخ، زرد وغیرہ وغیرہ
کہ ان سب میں دوسرا حرف ساکن ہے لیکن عموماً ہمیں اپنے ارد گرد (اور میڈیا پر بھی) انکا غلط تلفظ دوسرے حرف پر زبر کے ساتھ سننے کو ملتا ہے جو کہ طبعِ لطیف پر بہت گراں گزرتا ہے اور شعر میں اس قسم کی غلطی ہونا تو ناقابلِ معافی ہے، اساتذہ ایسے موقعے اصلاح دیتے ہیں کہ برخوردار پہلے کچھ اور مطالعہ کر لو اور بزرگوں کی صحبتوں سے فیضیاب ہو لو تو پھر شاعری کرنا، لیکن یہ بات فقط کہنے کی حد تک ہے، تھوڑے سے تردد اور تھوڑی سی 'کامن سینس' سے ہر مشکل کا حل مل جاتا ہے۔
----تَلَفُّظ کی غلطیاں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن میں کسی حرکت کو غلط ادا کیا جائے جیسے بادَل کہ دال پر زبر ہے، اس کو بادِل دال کی زیر کے ساتھ بول دیا جائے اور دوسری وہ جن میں کسی ساکن حرف کی جگہ متحرک حرف بولا جائے جیسے صبر کہ اس میں بے ساکن ہے کو صبَر بولا جائے یا متحرک کی جگہ ساکن حرف ادا کیا جائے، جیسے غلَط کہ اس میں لام پر زبر ہے کو غلط لام ساکن کے ساتھ بولا جائے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں طرح کی غلطیوں سے کسی منظومے یا شاعر کے کلام پر کیا فرق پڑ سکتا ہے۔
اول حرکت کا بدل دینا، شاعر کو کسی لفظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو یا نہ، یہ غلطی اس وقت تک اسکے سر نہیں جاتی جب تک وہ خود کسی مشاعرے یا ویسے پڑھنے میں غلط تلفظ نہ ادا کرے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وزن دراصل ہجوں کی ترتیب کا نام ہے یعنی ہجائے بلند کی جگہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ، یعنی کسی لفظ کی غلط حرکت ادا کرنے سے اسکے وزن پر فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر لفظ بادل کو ہی دیکھتے ہیں، اسکا صحیح تلفظ بادَل اور وزن 2 2 ہے لیکن اگر کسی شاعر کو اسکے صحیح تلفظ کا علم نہیں ہے اور اس نے اپنی طرف سے اسے 'بادِل' باندھ دیا ہے تو وزن پر پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ یہ بھی 22 ہے۔
لیکن فرض کریں کہ ایک شاعر ایک غزل کہتا ہے جسکے قوافی، محفِل، قاتِل، دِل وغیرہ ہیں، اس میں اگر وہ 'بادِل' غلط تلفظ کے ساتھ قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر اس کیلیے کوئی رعایت نہیں ہے یا بادل، آنچل، جنگل کے ساتھ محفِل کو محفَل سمجھ کر قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر یہ بھی ایک فاش غلطی ہے اور کوئی بھی قاری کسی شاعر سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتا۔
دوسری طرف اگر ساکن اور متحرک کی جگہ بدل دی جائے تو زمین و آسمان زیر و زبر ہو جاتے ہیں، مثلاً صبر، ب ساکن کے ساتھ کا وزن صب،ر یعنی 2 1 ہے لیکن اسے صَ بَر باندھنے سے اسکا وزن 1 2 ہو جائے گا یعنی ہجوں کی ترتیب بدل جائے گی سو وزن نہیں رہے گا اور شاعر چاہے زبان کھولے یا نہ کھولے بہرطور 'پکڑا' جائے گا۔ اسی طرح اگر 'غَلَط' یعنی غَ لَط کو غل،ط باندھا جائے گا تو وزن پھر بدل جائے گا اور شعر پھر بے وزن ہو جائے گا۔
ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، بہت آسان ہے، اوّل تو آپ کے پاس ایک اچھی اردو لغت ہونی چاہیئے جس میں تلفظ واضح کیا گیا ہو، دوسرا یہ کہ جس لفظ کے تلفظ کے بارے میں ذرا بھی شک ہو اس کو اس وقت تک شاعری میں استعمال نہ کریں جب تک اس کی کوئی سند نہ حاصل کر لیں یعنی جب تک اسے معیاری لغت میں نہ دیکھ لیں یا کسی استاد شاعر کے کلام میں تقطیع کر کے اس کا صحیح وزن نہ معلوم ہو جائے۔ ویسے عرض کرتا چلوں کہ تقطیع کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے الفاظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو جاتا ہے کم از کم ساکن اور متحرک حروف کی حد تک۔ رومن حروف میں اردو لکھنے سے مجھے چڑ ہے بلکہ نفرت ہے لیکن اسکا ایک فائدہ ایسا ہے کہ عرصے سے میں اسکا قتیل ہوں اور مستند رومن اردو لکھی ہوئی اگر کہیں مل جائے تو کوشش ضرور کرتا ہوں پڑھنے کی کہ اس سے تلفظ بالکل واضح اور صاف ہو جاتا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو دو چار پیرے اگر رومن اردو میں لکھنے پڑ جائیں تو 'لگ پتا جاتا ہے' کیونکہ اس میں غلطی فوری پکڑی جاتی ہے، مثلا ایک فورم کی ڈومین میں نے alqalm لکھی دیکھی ہے جو کہ سراسر غلط ہے یہ ان کی کوئی 'مجبوری' بھی ہو سکتی ہے لیکن بہرحال اس پائے کے فورم پر ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیئے۔
ایک عام بات جو میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستانی احباب بالعموم اور پنجابی احباب بالخصوص ان مختصر الفاظ کے تلفظ میں غلطی کرتے ہیں جن میں دوسرا حرف ساکن ہے۔
جیسے یہ الفاظ، برف، گرم، نرم، شرم، جُرم، سرد، فرد، مرد، صبر، قبر، جبر، حشر، لطف، حمل، وزن، علم (جاننا)، عقل، عرش، فرش، سبز، سرخ، زرد وغیرہ وغیرہ
کہ ان سب میں دوسرا حرف ساکن ہے لیکن عموماً ہمیں اپنے ارد گرد (اور میڈیا پر بھی) انکا غلط تلفظ دوسرے حرف پر زبر کے ساتھ سننے کو ملتا ہے جو کہ طبعِ لطیف پر بہت گراں گزرتا ہے اور شعر میں اس قسم کی غلطی ہونا تو ناقابلِ معافی ہے، اساتذہ ایسے موقعے اصلاح دیتے ہیں کہ برخوردار پہلے کچھ اور مطالعہ کر لو اور بزرگوں کی صحبتوں سے فیضیاب ہو لو تو پھر شاعری کرنا، لیکن یہ بات فقط کہنے کی حد تک ہے، تھوڑے سے تردد اور تھوڑی سی 'کامن سینس' سے ہر مشکل کا حل مل جاتا ہے۔
متعلقہ تحاریر : علم عروض
اچھی کوشش کی آپ نے اصلاح کی۔ ۔
ReplyDeleteویسے جو بھی الفاظ آپ نے لکھے ہیں ان میں سے اکثر غلط ہی صحیح لگتے ہے۔ ۔ ۔۔ !۔
جیسے صبر، جبر، برف، قبر، حشر اور حمل تو دوسرے حرف ساکن کے ساتھ کبھی نہیں سنے کہ بہرحال میں بھی پنجابی ہوں!!۔
وارث بھائی بہت خوب مضمون ہے۔ معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔
ReplyDeleteتلفظ کی غلطیاں تو ہمارے ہاں بکھری پڑی ہيں خاص طور پر ابلاغی ادارے تو روزانہ درجنوں کے حساب سے کرتے ہیں۔ لیکن مزا تب آتا ہے جب کوئی ایسی شخصیت جو نثر نگاری یا کالم نگاری میں اچھی خاصی شہرت رکھتی ہو اور اچانک اسے ٹیلی وژن چینل پر کوئی پروگرام کرنے کے لیے دے دیا جائے۔
صحافتی حلقے میں چند افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا لکھا ہوا پڑھیے ضرور لیکن ان کا ٹی وی پر آنے والا پروگرام نہ سنیے۔
بہت شکریہ عمیر اور فہد صاحبان۔
ReplyDeleteدروغ بر گردن راوی کہ اقبال نے بھی طالب علمی کے زمانے میں اپنے استاد کو یہی جواب دیا تھا کہ ”غلط کو غلط ہی پڑھنا چاہئے“
ReplyDeleteجی وہ کہہ سکتے تھے کہ اقبال تھے۔
ReplyDeleteوارث صاحب بہت خوب!
ReplyDeleteمیں نے پنڈی اسلام آباد میں اردو کی جامع اور معیاری لغت تلاش کرنےکی بہت کوشش کی ہے لیکن بے سود.آپ کے ذہن میں کسی مرتب اور ناشر کا نام ہو تو بتایے.
شکریہ
اسرار صاحب اچھی اور معیاری لغات میں، وارث سرہندی کی علمی اردو لغت جامع ہے جسے علمی پبلشرز نے ہی شائع کیا ہے، اسکے علاوہ نور الغات اور اگر ہو سکے تو اردو کی سب سے بہتر لغت ‘فرہنگِ آصفیہ‘ خریدیں جو چار جلدوں میں ہے اور اسے حال ہی میں سنگِ میل، لاہور نے شائع کیا ہے۔
ReplyDeleteجزاک اللہ سر بہت شکریہ
ReplyDeleteنوازش خرم۔
ReplyDeleteتلفظ کی بات توٹھیک ہی کہی
ReplyDeleteیہاں تو اردو کے ٹھیکیدار تلفظ کے ساتھ ساتھ چیز کی جنس بھی بدل دیتے ہیں
اور واقعی تپ تو بہت چڑھتی ہے
لیکن چپ رہنا پڑتا ہے کہ اردو کے چوہدری ہم بھی کہلوانا نہیں چاہتے :)) ۔
سر جی سنگ میل کی کتابیں تو اول اتنی مہنگی ہوتی ہیں
اوپر سے چار جلدیں؟
ویسے کتنے کی ہو گی یہ ٹوٹل؟
میرے پاس تو عرصے سے فیروزاللغات ہے
جس میں مطلب نہیں ملتا لیکن اس کا استعمال ضرور مل جاتا ہے
بہر حال آپ کی بتائی گئی فرہنگِ آصفیہ جلد از جلد خریدوں گا ضرور
بہت شکریہ ڈفر بھائی صاحب آپ کے سب تبصروں کیلیے۔ سنگِ میل کے متعلق آپ نے بالکل صحیح لکھا، بہت مہنگی کتابیں ہوتی ہیں انکی اور پھر ڈسکاؤنٹ بھی بہت کم کرتے ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ دراصل آج سے سو، سوا سو سال پہلے شائع ہوتی تھی، میرے پاس اسکا ایک پرانا ایڈیشن ہے جو لاہور کے انارکلی بازار کے فٹ پاتھ سے بارہ تیرہ سال پہلے خریدا تھا۔ سنگِ میل کا موجودہ ایڈیشن واقعی بہت مہنگا ہوگا، میں نے دیکھا ضرور تھا لیکن افسوس قیمت ذہن میں نہیں رہی۔ بہرحال اس سے بہتر ہے کہ آپ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت جامع خرید لیں جسے مشتاق احمد یوسفی جدید دور کی سب سے مستند لغت سمجھتے ہیں۔
ReplyDeleteوارث بھائی بہت خوب، لاجواب.
ReplyDeleteآپ کی تحریر پڑھ کر یقین مانیے اصلاح کے ساتھ ساتھ لطف آ گیا -
بہت شکریہ نعمان علی صاحب، نوازش۔
ReplyDeleteکوئی دس پندرہ سال قبل کا ذکر ہے کہ جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کے ایک پروفیسر کی صدرِ شعبہ کے عہدہ پر ترقی کی خوشی میں ہماری ادبی انجمن نے ان کے تہنیتی جلسے کا انعقاد عمل میں لایا تھا۔ بحیثیت جنرل سیکریٹری مجھے ان پر ایک تعارفی مضمون پڑھنا تھا۔ جلسے میں والد محترم کی بھی شرکت متوقع تھی (جو کہ ایک نامور شاعر بھی ہیں) ، یقین کیجئے کہ لکھنے کو تو "بہترین" مضمون لکھ لیا کہ ہم نثر کے میدان کے کھلاڑی ہیں لیکن بھرے مجمع میں تقریر کا موقع اور وہ بھی درست تلفظ کے ساتھ ؟؟ بہتر یہی سمجھا کہ پہلے والد صاحب ہی کے سامنے گھر پر مضمون سنا لیا جائے۔ اچھا ہی ہوا کہ صرف گھر پر بےتحاشا ڈانٹ پڑ گئی اور اعراب کے ساتھ بہت سارے الفاظ نوٹ کر کے رٹنا پڑ گیا۔ ورنہ محفل میں جو کھلی اڑتی تو شائد پانی بھی نہ ملتا۔
ReplyDeleteآپ کا شکریہ کہ اچھے اور مفید موضوع کی جانب توجہ دلائی۔
شکریہ سیّد صاحب اپنی خوبصورت یادداشت شیئر کرنے کیلیے۔
ReplyDeletebhai ghalib ka ye shair kis behar men ha?????????
ReplyDeleteدِلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
جی یہ شعر بحر خفیف میں ہے
Deleteفاعلاتن مفاعلن فعلن
دلے نادا - فاعلاتن
تجے ہوا - مفاعلن
کا ہے - فعلن
صحیح تقطیع کچھ یوں ہے اور بحر خفیف ہی ہے
Deleteدِ لِ نا دا - فعلاتن - 2211
تجے ہوا - مفاعلن - 2121
کا ہے - فعلن - 22
آ خِ رس در- فاعلاتن - 2212
د کی دوا - مفاعلن - 2121
کا ہے - فعلن - 22
استاد جی دلے فاع کے وزن پر کیسے بیٹھ رہا ہے؟
ReplyDeleteدِ ١
لے ٢
اور
فا ٢
ع ١
جی اوپر لکھنے میں تھوڑی سی غلطی ہو گئی یہ دراصل دِ لِ ہے یعنی 1 1
ReplyDeleteاس بحر میں فاعلاتن کی جگہ فعلاتن لانا بھی جائز ہے سو مصرعے کی صحیح تقطیع کچھ یوں ہے
دِ لِ نا دا - فعلاتن - 2211
تجے ہوا - مفاعلن - 2121
کا ہے - فعلن - 22
جزاک اللہ
ReplyDelete