ایک تازہ غزل جس کا 'نزول' پرسوں ہوا سو لکھ رہا ہوں۔ عرض کیا ہے۔
نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
متعلقہ تحاریر : محمد وارث,
میری شاعری
ہممممم۔۔۔۔۔
ReplyDeleteبہت خوب وارث بھائی بہت اچھی غزل ہے۔
ReplyDeleteقافیہ بہت محدود ہونے کے باوجود بہت اچھے اشعار کہے ہیں آپ نے۔
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تو چراغ زندگی کا
اور جناب مقطع تو لاجواب ہے ۔
نذرانہٗ تحسین حاضرِ خدمت ہے۔
مجھے یہ شعر زیادہ پسند آیا
ReplyDeleteیہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
میں مسافرِ شبِ ہجر، تو چراغ زندگی کا
اس میں تسبیغ جیسا کچھ ہوا ہے؟
واہ واہ
ReplyDeleteبہت اچھی غزل ہے
ایاغ پہلی بار سنا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟
شکریہ آپ سب کا، نوازش۔
ReplyDeleteجعفر، ہوں۔۔۔۔۔۔ :)
احمد صاحب، نوازش آپ کی بھائی بہت شکریہ۔
باسم، تسبیغ مصرعے کے عین وسط میں ہو گیا (ہجر)، دراصل مقطع بحر یعنی جو دو برابر ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے (جیسے کہ اس غزل کی بحر ‘رمل مشکول‘ فعلات فاعلاتن، فعلات فاعلاتن) تو اس میں ہر ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آتا ہے یعنی تسبیغ جائز ہو جاتی ہے، تفصیل انشاءاللہ کسی مقطع بحر کے تعارف میں۔
شاکر صاحب، نوازش آپ کی۔ ایاغ بمعنی پیمانہ۔
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
ReplyDeleteمرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
خُوب
ویسے تو ساری غزل ہی لاجواب ہے مگر حاصل غزل شعر مقطع ہے.
ReplyDeleteبہت شکریہ شعیب صاھب اور افضل صاحب، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteنہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
ReplyDeleteیہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
بہت خوب ۔
امید
بہت شکریہ امید، نوازش۔
ReplyDeleteالسلام علیکم بہت خوب سر جی کیا بہترین غزل عنائیت فرمائی ہے آپ نے بہت پیاری غزل ہے ارسال کرنے کا شکریہ
ReplyDeleteالسلام علیکم
ReplyDeleteبہت خوبصورت غزل ہے.
ایاغ کی سمجھ نہیں آئی تھی مگر آپ نے اوپر اسکی بھی وضاحت کر دی.
آپ کا کلام اپنی سائٹ پر پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں.
بہت شکریہ خرم اور سعد، نوازش آپ کی۔
ReplyDeleteسعد اگر آپ سمجھتے ہیں اس ‘چیز‘ کو کہیں اور بھی پوسٹ کیا جا سکتا ہے تو ضرور کرئیں برادرم :)
بہت خوب جناب ، سبحان اللہ ، ماشا اللہ ،
ReplyDeleteمبارکباد قبول کیجے ، گفتگو تو فورپر ہوہی رہی ہے۔
سو یہاں بھی حاضر ی ، آگاہی کے لیے ہے۔
والسلام
ذرہ نوازی ہے آپ کی محمود مغل صاحب، نوازش قبلہ۔
ReplyDeleteبہت خوب بہت اچھی غزل ہے
ReplyDeleteبہت شکریہ بلو صاحب، نوازش
ReplyDeleteالسلام علیکم وارث بھائی !
ReplyDeleteامید ہے خیریت سے ہونگے ۔ پہلی بار حاضری دی ہے ۔ آپ سے بات ہوتی رہی ہے ۔ بیچ میں ایک لمبا تعطل آگیا ہے ۔ خیر اب یہاں گفت و شنید کے آثار پیدا ہوچلے ہیں ۔ آپ کا بلاگ بہت خوبصورت ہے ۔ غزل بہت پسند آئی خصوصاً مقطع بہت غضب کا ہے ۔ اسی طرح لکھتے رہیں ۔ شکریہ
والسلام
بلاگ پر خوش آمدید ظفر علی خان درانی صاحب المعروف ظفری بھائی :) بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔ غزل کی پسندیدگی کیلیے بھی شکریہ، امید ہے یہاں تشریف لا کر خاکسار کی حوصلہ افزائی فرماتے رہیں گے۔
ReplyDeleteوارث صاحب! مقطع بہت اعلیٰ ہے۔ دعا ہے کہ آپ پر "نزول" جاری رہے تاکہ ہم مستفید ہوتے رہیں :) ۔
ReplyDeleteبہت شکریہ فہد صاحب، نوازش۔
ReplyDeleteنہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
ReplyDeleteیہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
واہ۔ زبردست۔ بہت خوب۔
اپنا کلام پوسٹ کرنے کے لئے بہت شکریہ وارث۔ ایسی پوسٹس جلدی جلدی کیا کیجئے :)
بہت شکریہ فرحت، نوازش۔ اپنا ‘خود ساختہ‘ کلام ضرور پوسٹ کرونگا اگر کچھ کہہ سکا تو :)
ReplyDeleteبہت ہی خوبصورت غزل ـــــــــــــــ صد تحسین وتعریف
ReplyDeleteنوازش آپ کی جناب مشتاق حسین صاحب، بہت شکریہ آپ کا۔
Delete