Jul 13, 2009

نکمّے

"کون؟ مسلمان؟"
"نہیں۔"
"ہمارے حکمران؟"
"نہیں۔"
"سیاستدان؟"
"نہیں۔"
"مذہب کے ٹھیکیدار؟"
"نہیں۔"
"سرکاری افسران؟"
"نہیں۔"
"پُلسیے؟"
"نہیں۔"
"سرکاری اسکولوں کے ماسٹر؟"
"نہیں۔"
"کاروباری لوگ؟ دکاندار؟"
"نہیں۔"
"کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی؟"
"نہیں۔"
"ہا ہا ہا، شاعر؟"
"نہیں۔"
"تو پھر آخر کون؟"
"پاکستانی فوج کے جرنیل!"
"جرنیل؟، جنہوں نے باسٹھ سالوں میں سے آدھے سال اس ملک پر حکمرانی کی، وہ اور نکمّے؟"
"ہاں، وہی نکمّے، انہوں نے باقی کے آدھے سال اس نکمّوں کے مُلک پر حکمرانی کرنے کے موقعے ضائع کر دیئے۔"

متعلقہ تحاریر : سیاسیات, محمد وارث, میری تحریریں

19 comments:

  1. احتیاط صاحب احتیاط
    http://www.jang.com.pk/jang/jul2009-daily/13-07-2009/main.htm
    ذرا ادھر بھی نطر کرلیں۔۔۔

    ReplyDelete
  2. سچ کہا وارث بھائی ! یہ انہی کی غفلت ہے ورنہ ہم تو اس کے لئے بھی تیار ہیں. آج بھی لوگ اپنے منہ سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ قوم ہے ہی ڈنڈے کے قابل .

    یا یوں کہیے کہ عوامی حکومتوں سے یہی سبق ملتا ہے.

    ReplyDelete
  3. بہت خوب جناب بہت اعلی کچھ اسی طرح کی مایوسی ہم نے بھی لکھی تھی اگر وقت میسر ہو تو ایک جھلک دیکھ لیں مجبور نہیں کرتا ۔
    http://kami.wordpress.pk/articles/%db%81%d8%a7%da%ba-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%85%d8%a7%db%8c%d9%88%d8%b3-%db%81%d9%88%da%ba%db%94%db%94/

    ReplyDelete
  4. ھاھاھاھا۔ بہت خوب صاحب۔
    موجودہ حالات میں فوج کو ایک مرتبہ پھر تختہ پلٹنے کی اچھی تحریک دی ہے۔ ویسے امریکی جرائد یہ فریضہ انجام دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ٹائم میگزین کا جنرل کیانی کو اوباما سے زیادہ طاقتور قرار دینا اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ واللہ اعلم

    ReplyDelete
  5. تختہ پلٹ بھی جائے تو کیا ہوگا ایک نکمی یز جائے گی اور اس کا بھی باپ آجائے گا

    ReplyDelete
  6. دراصل جرنیل نکمے نہیں کیونکہ باقی کے آدھے سال وہ پردے کے پیچھے سے حکومت کی ڈوری تھامے رہے۔
    نکمے
    عوام
    کیونکہ ان پر جو بھی سوار رہے وہ گدھے ک طرح بناں ذہن پر بوجھ ڈالتے چلتے ہی جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  7. سب کچھ غلط ہو سکتا ہے مگر اللہ کا فرمان ہیشہ اٹل ہے
    جیسی قومیں ہوتی ہیں ویسے حُکمران اُن پر مسلط کر دیئے جاتے ہین

    پنجابی میں کہتے ہین
    جیئا منہ تيئی چپیڑ

    ReplyDelete
  8. کہاں جی
    باسٹھ میں سے اکسٹھ سال انہی جرنیلوں نے تو حکومت کی ہے

    ReplyDelete
  9. شکریہ آپ سب کا، سب سے پہلے تو معذرت خواہ ہوں کہ پوسٹ کا رنگ کچھ سیاسی ہو گیا، دراصل ایک خیال سا گذرا تھا، قلتِ وقت یا سہل اندازی کہہ لیں کہ اس کو مجاز کے رنگ میں نظم کرنے کی بجائے مکالمہ لکھ دیا۔
    جعفر - شکریہ معلومات کیلیے، بقولِ غالب
    خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
    ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
    شکریہ احمد صاحب۔
    بلاگ پر خوش آمدید کامران صاحب، آپ کی مایوسی دیکھی، بالکل بجا ہے۔
    شکریہ فہد صاحب، نہیں ترغیب نہیں ہے نہ تحریک، لیکن بہت سارے لوگوں کی طرح جمہوریت کے بارے میں میرے بھی تحفظات ہیں گو یہ الگ بات کے آمریت اس سے بھی بُری چیز ہے۔
    بلو بھائی، افضل صاحب، اجمل صاحب، ڈفر بھائی، آپ سب سے میں متفق ہوں۔

    ReplyDelete
  10. وارث صاحب! گو کہ وضاحت کی ضرورت نہ تھی لیکن بہت شکریہ۔ جمہوریت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اگر کبھی ذکر کریں تو میرے خیال میں آپ کے بلاگ پر منہ کا ذائقہ کا بدلنے کا موقع مل جائے گا :) ۔

    ReplyDelete
  11. واہ جناب بہت خوب کہا آپ نے۔
    خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی قوم اسی قابل ہے کہ اس پر بدترین لوگ حکمرانی کریں۔

    ReplyDelete
  12. فہد صاحب مشکل کام ہے لیکن کوشش کرونگا :)
    شکریہ سعد!

    ReplyDelete
  13. حضور! آپ بھی مشکلوں سے گھبراتے ہیں۔ چلیے آپ کی مرضی۔ برا لگا ہو تو معذرت خواہ ہوں۔

    ReplyDelete
  14. برا لگنے والی تو قطعاً کوئی بات نہیں ہے :) مشکل اس طرح کہ شاید بلاگ کا چلن سیاسی نہیں کرنا چاہتا لیکن پہلے ہی آدھا مضمون لکھ کے رکھا ہوا ہے افلاطون کی ریاست اور اسکے متعلق، دیکھیئے اگر کبھی مکمل ہو گیا تو :)۔

    ReplyDelete
  15. کوشش کی جا سکتی ھے۔

    چند سکوں کے عوض بکتا ہے انسان کا ضمیر

    کون کہتا ہے میرے دیس میں مہنگائی ہے

    ReplyDelete
  16. بلاگ پرخوش آمدید کرکٹر، اور شکریہ۔

    ReplyDelete
  17. صحیح لکھا وارث آپ نے۔ :) ہر طرف مواقع بکھرے پڑے ہوں تو فائدہ نہ اٹھانے والے واقعی نکمے ہیں۔ بندہ پوچھے ان جرنیلوں سے کہ یہ بیچ بیچ میں دو چار سال کی بریک کیوں لیتے ہیں بھلا۔
    آمریت تو بدترین ہے ہی لیکن ہمارے ملک میں تو جمہوریت بھی وردی کے بغیر آمریت کا نام ہے۔ :(

    ReplyDelete
  18. وارث بھائی ۔۔ پہلے تو مبارکباد قبول کریں کہ آپ نے اتتہائی موثر انداز میں پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ کا احاطہ کیا ۔ اس موضوع پر میں پہلے بھی کئی بار اردو محفل پر لکھ چکا ہوں ۔ چونکہ آرمی اسٹیبلشمنٹ ایک موثر اور منظم ادارہ ہے ۔ اس لیئے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور مذہبی پیشواء کے درمیان اقتدار کی کھینچا تانی سے فائدہ اٹھا کر اکثر یہ جرنیل حکومت پر باآسانی قابض ہوجاتے ہیں ۔ اور ان گروہوں کے درمیان جو بیوروکریسی کا جو ادارہ ہے ۔ وہ غیر ملکی پشت پناہی پر کام کرتی ہے ۔ جو موقع اور حالات دیکھ کر حکومت کی گیند اپنے مفادات دیکھ کر دونوں اطراف کے کورٹس میں ادھر ادھر کرتی رہتی ہے

    ۔ فوج کے بعد بیوروکریسی ایک ایسا ادارہ ہے جس کے بارے میں یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ یہ واحد ایک ایسا ادارہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ ایک ایسا جتھہ ہے جو ملک کے پیچیدہ سیاسی نظام میں کمپوٹر وائرس کی طرح ہر جگہ رسائی رکھتے ہیں ۔ اور جہموریت اور آمریت دونوں ،ان کی تائید کے بناء پنب نہیں سکتی ۔ ہم نے ان کو ایک حد تک نظرانداز کیا ہوا ہے مگر جب بھی فوجی آمریت یا پھر غیر ملکی آقاؤں کی رضامندی سے نام نہاد جہموریت اس ملک میں آئی تو ان کی پشت پناہی اور کلیرنس کے بغیر نہیں آئی ۔ ملک میں اس وقت جو پیچیدہ سیاسی نظام موجود ہے ( چاہے آپ اسے جاگیردارانہ ، سرمایہ دارانہ یا آمریت سے تعبیر کرلیں ) ۔ اس کی بقاء کے صحیح ضامن یہی لوگ ہیں ۔ اور ان کے کھرے بیرونِ ملک تک جاپہنچتے ہیں ۔

    ReplyDelete
  19. شکریہ فرحت اور ظفری بھائی، واقعی آپ دونوں نے بالکل بجا لکھا۔

    ReplyDelete