شیخ فخر الدین عراقی نامور صوفی شاعر تھے، انکے کچھ حالات اور ایک غزل پہلے لکھ چکا ہوں، انکی ایک اور خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں۔
دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ہمہ ہستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم
تُو دل ہے یا دلبر، تُو جان ہے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ہر ہستی و ہر چیز تو تُو ہی ہے، میں یہ اور وہ کچھ نہیں جانتا۔
بجز تو در ہمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ہمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم
سارے جہان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نہیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نہیں پہچانتا۔
بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم
تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نہیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نہیں دیکھتا۔
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ Fakhruddin Iraqi |
شکستی عہد، یا ہستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عہد کیے، تُو نے اپنے عہد توڑ دیے یا ابھی تک انہی پر ہے، میں کچھ نہیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نہیں ہے، عشق میں عہد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔
بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟
تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ہوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نہیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ہی دردِ دل کا پہلا اور آخری علاج ہے۔
نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم
مجھ (ہجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ہے اور نہ جہان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کہاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ہونا ہی اس شعر کا وصف ہے کہ یہیں سے سارے راستے کھلیں گے۔
عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم
یہ بھی عجیب ہے کہ تیرا جمال ہر سُو اور ہر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہوں۔
ھمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم
یہ جانتا ہوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ہی جمال سے روشن ہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو سورج ہے یا تابناک چاند۔ یہ شعر اور اس سے قبل کے دو اشعار قطعہ محسوس ہوتے ہیں۔
بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رہا خواہم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم
عراقی کے پاؤں ہجر کے قید خانے میں بندھے ہوئے ہیں، اور اس قید سے رہا ہونا بھی چاہتا ہوں یا نہیں، نہیں جانتا۔
بہت خوبصورت غزل ہے ..
ReplyDeleteبہت شکریہ ..
زھرا علوی
بہت خوب!
ReplyDeleteویسے سیالکوٹی کو بلاگستان میں مل کر خوشی ہوئی....ہمارا بھی سیالکوٹ سے کچھ تعلق ہے.
شکریہ زھرا علوی صاحبہ۔
ReplyDeleteخوش آمدید عثمان صاحب، اور خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ کا بھی سیالکوٹ سے کچھ تعلق ہے۔
آپ کا بلاگ دیکھ کر خوشی ھوی اور اردو مین ٹایپ کر بی- اگرآپ عراقی کی وہ غزل پؤشٹ کر سکین جس کا مقطہ ھے "پیا بیا عراقی کہ تو خاص گان ماہی" تو مشکور ھون گا
ReplyDeleteشکریہ جناب اور بلاگ پر خوش آمدید، مذکورہ غزل ملی تو ضرور پوسٹ کرونگا۔
ReplyDelete