کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار، آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمتِ کردار، آؤ سچ بولیں
سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی منصف ہے
پکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں
Qateel Shifai, قتیل شفائی |
تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں
چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئنہ بردار، آؤ سچ بولیں
قتیل جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار، آؤ سچ بولیں
قتیل شفائی
------
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
کُلا ہ جُو - مفاعلن -2121
ٹ کَ بازا - فعلاتن - 2211
ر آؤ سچ - مفاعلن - 2121
بولے - فعلن - 22
نَ ہو بلا - مفاعلن - 2121
سِ خریدا - فعلاتن - 2211
ر آؤ سچ - مفاعلن - 2121
بولے - فعلن - 22
------
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر مجتث,
تقطیع,
قتیل شفائی
زبردست شیئرنگ ہے وارث بھائی
ReplyDeleteشکریہ آپ کا کوثر بیگ صاحبہ۔
ReplyDelete