رانا سعید دوشی کی ایک خوبصورت غزل
کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا
میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا
مجھے بتایا ہوا ہے مری چھٹی حس نے
میں اپنے عہدِ خلافت میں مارا جاؤں گا
مرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہوگا
میں دوستوں کی حراست ميں مارا جاؤں گا
یہاں کمان اٹھانا مری ضرورت ہے
وگرنہ میں بھی شرافت میں مارا جاؤں گا
Rana Saeed Doshi, رانا سعید دوشی |
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
میں ورغلایا ہوا لڑرہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا
فراغ میرے لیے موت کی علامت ہے
میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاؤں گا
بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا
نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبّت میں مارا جاؤں گا
رانا سعید دوشی، واہ کینٹ
------
قافیہ - اَت یعنی تے اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے حمایت میں یَت، مروّت میں وَت، حقیقت میں قَت وغیرہ۔
ردیف - میں مارا جاؤں گا
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔ جیسے چھٹے شعر میں الفاظ "میرا ضمیر" کا ٹکڑا "رَ ضمیر" فَعِلان پر تقطیع ہوتا ہے اور آخری شعر میں "سوچ لیا" کا ٹکڑا "چ لیا" فَعِلن پر تقطیع ہوتا ہے۔
علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا
کہا کسی - مفاعلن - 2121
کِ حمایت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22
مِ کم شنا - مفاعلن - 2121
س مروّت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22
-----
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر مجتث,
تقطیع,
رانا سعید دوشی
واہ واہ واہ!
ReplyDeleteبہت ہی خوبصورت غزل کا انتخاب کیا ہے وارث بھائی آپ نے۔
لاجواب۔ ایک ایک شعر زبردست ہے۔
بہت اعلیٰ جی بہت اعلیٰ
ReplyDeleteہمارا خیال ہے یہ غزل سب سے پہلے ہم نے عطاالحق قاسمی کے کالم میں پڑھی تھی۔ غزل کے زیادہ تر اشعار بہت اچھے ہیں۔
ReplyDelete
ReplyDeleteمیں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حقیقت سے قریب/ خوبصورت شعر / جناب کا بُہت شُکریہ ۔
وارث صاحب ! آپ میں اور مجھ میں بہت سی نسبتیں ہیں۔ایک نام کی ، دوسری شہر کی ،تیسری شوق کی ، چوتھی جنون کی آپ سے رابطہ چاہتا ہوں ہوں میرے بارے میں جاننے کے لئے گوگل کا صفحہ آپ کی مدد کرے گا تاہم میرا ای میل کا پتہ دیکھ لیجئے اگر وقت ملے تو رابطہ کیجئے
ReplyDeletewaiqbal@gmail.com
Blogs
http://soach-kawish.blogspot.com/
http://kawishforkids.blogspot.com/
http://teachingurdu.blogspot.com/
بہت شکریہ آپ سب دوستوں کا، نوازش آپ کی۔ وارث اقبال صاحب آپ کو ای میل ارسال کر دی ہے اور شکریہ آپ کا یہاں تشریف لانے کیلیے۔
ReplyDeleteدوشی صاحب کیا کمال لکھا ہے۔ آج کے سفید پوش ،خاموش اور سادہ انسان کا دل اور دماغ پیش کردیاہے ۔ اور وارث صاحب کی نظرِ انتخاب بھی قابلِ ستائش ہے۔ ایک سوال وارث صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا انہیں دوسروں کے بلاگز پر رائے کا اظہار کرنا نہیں آتا یا انہیں اپنا اندر چھاپنے اور دوسروں کا اندر جاننے کا شوق ہے
ReplyDeleteاگرچہ میرے بلاگز مختلف نوعیت کے ہیں لیکن ان کے کامنٹ بکس آپ جیسے اردو زبان کےقدردانوں کی رائے کے منتظر ہیں۔ آج جب ہم ایک عذاب دور سے گذر رہے تو کیوں نہ اپنے لئیے نہیں اپنے بچوں کے لئیے مختلف بلاگز بنائیں۔
"ﺳﻮﭺ ﻟﯿﺎ" ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ "ﭺ ﻟﯿﺎ" ﻓَﻌِﻠﻦ ﭘﺮ
ReplyDeleteﺗﻘﻄﯿﻊ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
سرکیا ہم ایک ساکن حرف اور ایک متحرک کو جوڑ کر ہجائےبلند بناسکتے ہیں؟
چ لیا
چ ساکن اور ل متحرک ہے.
یعنی. چل+یا= فعلن
جی اس طرح نہیں بنا سکتے،چ لیا فَعِلن کو فعلن چل یا نہیں بنا سکتے بلکہ اس طرح سے ہجایے بلند بنانے کے لیے ضروری ہے کہ الف کو ساقط کیا جائے جو کہ یہاں نہیں ہے۔ لیکن کچھ بحروں میں اس کی اجازت کچھ اصولوں کے تحت ہوتی ہے جسے تسکینِ اوسط کہتے ہیں، مثلاً اگر پے در پے تین حرکتیں اکھٹی ہوں تو ان میں سے دو کو ساکن کر کے ہجائے بلند بنایا جا سکتا ہے مثلاً ایک بحر ہے
Deleteمفعول مفاعلن فعولن
اس میں مفعول کی لام اور مفاعلن کی میم اور فے تینوں متحرک ہیں تو یہاں لام اور میم کو ایک ہجائے بلند بنایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد اس کا وزن
مفعولن فاعلن فعولن
بن جائے گا۔