عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب "ذکرِ آزاد"، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ گزرے ہوئے انکے اڑتیس برسوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، میں مولانا شبلی نعمانی کا ایک دلچسپ واقعہ مولانا آزاد کی زبانی بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔
"علامہ شبلی نعمانی
جیل میں ایک دن مولانا [ابوالکلام آزاد] نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دلچسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے، حسن پرست بھی تھے اور موسیقی وغیرہ فنونِ لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے مگر مولوی تھے، عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔
ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے، آج میرے ہاں قوالی ہے، دہلی کی ایک مشہور طوائف۔۔۔۔(میں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے،میرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔
مولانا شبلی نے دعوت قبول کر لی، کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔ واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا، قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پا کر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔
مولانا شبلی نعمانی Maulana Shibli Nomani |
مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے، اس غیر متوقع واقعہ نے انکی ساری خوشی کرکری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہو گئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ طبلچی کو کیا جواب دیں؟ کس طرح محفل سے غائب ہو جائیں؟ بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا مگر علامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا، ہفتوں شگفتہ نہ ہو سکے۔
مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علامہ شبلی نے ان سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے، کاش "الفاروق" میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی اور نکلی تھی تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا، یہ نہیں تو مجھے موت آ گئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔"
(اقتباس از ذکرِ آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی)
----
ہم انسانوں کے ساتھ یہ بھی عجیب معاملہ ہے۔۔۔گناہ کا کام کرتے وقت اس بات سے بہت خائف رہتے ہیں کہ دوسرے انسان ہمیں یہ کام کرتے نہ دیکھ لیں ۔ لیکن اللہ دیکھ رہا ہے اس بات کی وجہ سے دل پر کوئی بوجھ نہیں آنے دیتے۔ یعنی انسانوں کے سامنے جوابدہ ہونا ہمیں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے جبکہ اللہ کے سامنے اپمے اعمال کا حساب دینے کو ہم معمولی خیال کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہم دل ہی دل میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ اللہ کو تو ہم منا ہی لیں گے۔۔۔میں ذاتی طور پر بھی اس صورتحال سے دوچار ہوتا رہا ہوں۔ عجیب سی بات ہے یہ۔
ReplyDeleteسبق آموز۔۔۔۔۔
ReplyDeleteشکریہ
گستاخی معاف ۔ ابوالکلام آزاد صاحب يہ واقعہ سنانے کے وقت نشے ميں تھے يا ہوش ميں ؟
ReplyDeleteبھوپال صاحب آپ کے سوال کا جواب تو مولانا ابوالکلام آزاد ہی دے سکتے ہیں، آپ کو موقع ملا تو ان سے ضرور پوچھیے گا۔
ReplyDeleteوارث بھائی
ReplyDeleteبھئی بہت ہی خوب
اسے ایک جگہ آپ کے نام کے ساتھ استعمال کیا ہے