کچھ شعراء کا خیال ہوتا ہے کہ اگر غزل میں ایک یا دو شعر بھی اچھے نکل گئے تو غزل سمجھو پار لگی، بہتر شاعر کم از کم تین جاندار اشعار کا التزام کرتے ہیں، مطلع، حسنِ مطلع اور مقطع، اور کسی غزل کے سارے اشعار کا خوب ہونا اور اس میں کسی بھرتی کے شعر کا نہ ہونا واقعی ایک مشکل کام ہے لیکن ایک غزل کے تمام اشعار کا ادب میں اپنا مستقل مقام حاصل کرنا چند خوش نصیب شاعروں اور غزلوں کے حصے میں ہی آیا ہے۔ انہی میں سے جوش ملیح آبادی کی یہ غزل ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے، جوش گو غزل کے شاعر نہیں تھے بلکہ نظم اور رباعی ان کو زیادہ پسند تھی لیکن ایسی طرح دار غزلیں بھی کہی ہیں کہ بڑے بڑے غزل گو شعراء کے حصے میں ایسی غزلیں نہیں ہیں۔
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
Josh Malihabadi, جوش ملیح آبادی |
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
--------
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
سوزِ غم دے - فاعلاتن
کِ مجے اس - فعلاتن
نِ یہ ارشا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن
جا تجے کش - فاعلاتن
مَ کَ شے دہ - فعلاتن
ر سِ آزا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن
جوش کی اسی غزل کو عابدہ پروین نے کیا خوب گایا ہے۔ گزشتہ سال سفر لاہور کے دوران میرے موبائل میں موجود تھی۔ آتے جاتے لاہور کے طویل ٹرین سفر کے باوجود آج بھی جب سنتا ہوں تو ایک تازگی جھلکتی ہے۔
ReplyDeleteغزل کی خوبصورتی میں تو کوئی شک نہیں مگر ہم جیسے نئے طالبعلم کیلیے اس کی تقطیع بہت مشکل ہے۔ یقین کریں اپنے تو کچھ پلے نہیں پڑا۔
ReplyDeleteایک گزارش
ReplyDeleteاحمد رضا بریلوی کا سلام بہت مشہور ہے کیا اس کے چند اشعار تقطیع کیساتھ سنا سکتے ہیں۔
مصطفے جان رحمت پہ لاکھوں سلام۔
بہت شکریہ وارث صاحب،
ReplyDeleteمیں نے جگجیت سنگھ کی آواز میں پہلی بار کلام سنا تھا تو روح سرشار ہوگئی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کلامِ بلاغت نظام جوش کاہے ، بہت شکریہ ، پیش کرنے کو ، ایک زحمت دینے لگا ہوں۔
کہ ایک مصر ع سن رکھا ہے ۔
پھر یوں ہوا کہ سب اسی قاتل کے ہوگئے
دوسرا مصرع، مکمل کلام ، یا شاعر کا نام ہی معلوم ہوسکے تو نوازش ہوگی۔
والسلام
بڑے معرکے کی غزل ہے
ReplyDeleteجوش کچھ زیادہ پسند نہیں مجھے
لیکں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ غزل ان کی ہے
شئیر کرنے کا شکریہ
خوبصورت غزل ہے.
ReplyDeleteبہت شکریہ ابوشامل فہد صاحب، میرا پاکستان افضل صاحب، م م مغل صاحب، جعفر صاحب اور راشد صاحب۔
ReplyDeleteمغل صاحب معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے لکھے ہوئے مصرعے کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔
افضل صاحب، انشاءاللہ ایک علیحدہ پوسٹ میں نعت اور اسکی تقطیع پیش کرتا ہوں۔
بہت اچھی غزل ہے.
ReplyDeleteبہت خوب۔
ReplyDeleteبہت شکریہ شاکر صاحب اور غفران صاحب۔
ReplyDeleteمحترم وارث بھائی!
ReplyDeleteبہت ہی خوبصورت غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے دل خوش ہو گیا پڑھ کر.
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
اس بحر میں "افاعیل" کیا بحر کے نام کا حصہ ہے؟ کیونکہ آپ کی تقطیع کے مطابق تو یہ بحر کا حصہ نہیں ہے.
اس خوبصورت غزل اور اُس کی تقطیٖع کے لئے بہت شکریہ!
بلاگ پر خوش آمدید احمد صاحب، بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔ دراصل ارکان کو افاعیل بھی کہتے ہیں اور یہ اسی وجہ سے لکھا، یقیناً بحر کا حصہ نہیں ہیں۔ امید ہے بلاگ پر تشریف لاتے رہیں گے :)
ReplyDeleteبہت شکریہ وارث بھائی کہ آپ نے اس کج فہم کی مشکل حل کردی۔
ReplyDelete