Nov 26, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ - می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر

پیامِ مشرق علامہ اقبال کی خوبصورت ترین کتب میں سے ہے، اسی لا جواب کتاب سے ایک لا جواب غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔ یہ غزل نہ صرف علامہ کی خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے بلکہ تغزل سے بھی بھر پور ہے جو کہ علامہ کا ‘ٹریڈ مارک’ تو نہیں ہے لیکن پیامِ مشرق کی کافی غزلیں اس رنگ میں ہیں۔

می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر
ہماری فکر ہر دم ایک نیا خدا تراشتی ہے، جب وہ ایک قید سے نکلتی ہے تو کسی اور قید میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

برسَرِ بام آ، نقاب از چہرہ بیباکانہ کش
نیست در کوئے تو چُوں من آرزو مندے دِگر
بام پر آ اور بے باک ہو کر اپنے چہرے سے نقاب اتار دے کہ تیرے کوچے میں مجھ جیسا تیرا کوئی اور آرزو مند نہیں ہے۔

بسکہ غیرت می بَرَم از دیدۂ بیناے خویش
از نگہ بافَم بہ رخسارِ تو رُوبندے دِگر
تیرا نظارہ کرنے والی اپنی ہی آنکھ سے مجھے غیرت آرہی ہے۔ اسلیے میں نظروں سے تیرے رخسار پر ایک اور نقاب بن رہا ہوں۔

یک نگہ، یک خندۂ دُزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دِگر
ایک نگاہ، ایک زیرِ لب تبسم، ایک چمکتا ہوا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال
عشق را نازم کہ از بیتابیِ روزِ فراق
جانِ ما را بست با دردِ تو پیوندے دِگر
اپنے عشق پر نازاں ہوں کہ اس نے فراق کے دن کی بیتابی سے میری جان کا تیرے غم کے ساتھ ایک اور پیوند لگا دیا ہے۔

تا شَوی بیباک تر در نالہ اے مرغِ بہار
آتشے گیر از حَریمِ سینہ ام چندے دِگر
اے بہار کے پرندے تا کہ تو اپنے نالے میں زیادہ بیباک ہوجائے، میرے سینے سے کچھ اور آگ لے لے۔

چنگِ تیموری شکست، آہنگِ تیموری بجاست
سُر بروں می آرد از سازِ سمرقندے دِگر
تیمور کا رباب تو ٹوٹ گیا مگر اس سے نکلنے والی آواز اب تک باقی ہے۔ وہی نغمہ اب ایک اور سمرقند کے ساز سے باہر آرہا ہے۔ (علامہ کا یہ شعر انقلابِ رُوس اور کمیونزم کے پس منظر میں ہے)۔

رہ مَدہ در کعبہ اے پیرِ حرم اقبال را
ہر زماں در آستیں دارَد خداوندے دِگر
اے حرم کے پیر، اقبال کو کعبہ میں جانے کیلیے راہ نہ دے، کہ وہ ہر زمانے میں اپنی آستیں میں ایک نیا خدا رکھتا ہے۔
————

بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر

می تراشد - فاعلاتن - 2212
فکرِ ما ہر - فاعلاتن -2212
دم خداون - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212

رست از یک - فاعلاتن - 2212
بند تا اف - فاعلاتن - 2212
تاد در بن - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212

متعلقہ تحاریر : اقبالیات, بحر رمل, بحر رمل مثمن محذوف, پیامِ مشرق, تقطیع, علامہ اقبال, فارسی شاعری

4 comments:

  1. واہ واہ وارث بھائی انتخاب کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی خوب کیا ہے

    ReplyDelete