Showing posts with label کلاسیکی اردو شاعری. Show all posts
Showing posts with label کلاسیکی اردو شاعری. Show all posts

Nov 29, 2009

مسیح الملک حکیم اجمل خان شیدا کی ایک غزل - کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے

کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے

یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دُور کچھ اہلِ سفر گئے

ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ، خدا کو خبر ہے، کدھر گئے

رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قَدَر
میں ہوں زمیں، پہ داغ مرے تا قمر گئے
Hakim Ajmal Khan, حکیم اجمل خان, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
حکیم اجمل خان دہلوی
Hakim Ajmal Khan
رخسار پر ہے رنگِ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا، وہ نکھر گئے

دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے

جانے لگا ہے دل کی طَرَف ان کا ہاتھ اب
نالے شبِ فراق کے کچھ کام کر گئے

حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ، کہ شب آئے سحر گئے

بس ایک ذات حضرتِ شیدا کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہلِ ہنر گئے

(مسیح الملک حکیم اجمل خاں شیدا)
ماخذ: نقوش غزل نمبر، لاہور، 1985ء
---------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے
کُچ بات - مفعول - 122
ہی تِ ایسِ - فاعلات - 1212
کِ تامے جِ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212

ہم اور - مفعول - 122
جاتِ بزمِ - فاعلات - 1212
عدو مے مَ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 25, 2009

مرزا رفیع سودا کی ایک غزل - گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

Mirza Rafi Sauda, مرزا رفیع سودا, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Mirza Rafi Sauda, مرزا رفیع سودا
مرزا رفیع سودا کا شمار ان خوش قسمت شعراء میں ہوتا ہے جنہیں میر تقی میر شاعر بلکہ "مکمل شاعر" سمجھتے تھے۔ اردو شاعری کی بنیادوں کو مضبوط تر بنانے میں سودا کا نام لازوال مقام حاصل کر چکا ہے اور جب تک اردو اور اردو شاعری رہے گی انکا نام بھی رہے گا۔
سودا کی ایک غزل جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی

کیا ضد ہے مرے ساتھ، خدا جانئے ورنہ
کافی ہے تسلّی کو مرے ایک نظر بھی

اے ابر، قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھو لختِ جگر بھی

اے نالہ، صد افسوس جواں مرنے پہ تیرے
پایا نہ تنک دیکھنے تَیں رُوئے اثر بھی

کس ہستیٔ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تجھ کو خبر بھی

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک، گریبانِ سحر بھی

سودا، تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
گل پے کِ - مفعول - 122
ہِ اورو کِ - مفاعیل - 1221
طرف بلکہ - مفاعیل - 1221
ثمر بی - فعولن - 221
اے خانہ - مفعول - 122
بَ رَندازِ - مفاعیل - 1221 (الفِ وصل ساقط ہوا ہے)۔
چمن کچ تُ - مفاعیل - 1221
اِدَر بی - فعولن - 221

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 27, 2009

بابائے اردو شاعری، ولی دکنی کی ایک غزل - تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا

بابائے اردو شاعری، شمس ولی اللہ المعروف بہ ولی دکنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو حسن عطا کیا اور جو شاعری پہلے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کی جاتی تھی آپ نے اسے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ دیا اور یوں ایک ایسی بنیاد رکھی جس پر اردو شاعری کی پرشکوہ عمارت تعمیر ہوئی۔
مولانا محمد حسین آزاد، "آبِ حیات" میں فرماتے ہیں۔
ولی دکنی, Wali Dakani, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
ولی دکنی ایک خاکہ، Wali Dakani
"اس زمانے تک اردو میں متفرق شعر ہوتے تھے۔ ولی اللہ کی برکت نے اسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری، نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا، ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اسکے رباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چوسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔"

مولانا آزاد کے زمانے تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا تھا، جدید تحقیق سے گو یہ اعزاز تو انکے پاس نہیں رہا لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے جو اوپر مولانا نے کہی ہے۔

ولی کی ایک خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں، اس غزل میں جو متروک الفاظ ہیں انکے مترادف پہلے لکھ دوں تاکہ قارئین کو دشواری نہ ہو۔

سوں - سے
کوں - کو، کر
یو - یہ
سری جن - محبوب

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

دی حق نے تجھے بادشَہی حسن نگر کی
یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

تعریف ترے قد کی الف دار، سری جن
جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

مجھ پر نہ کرو ظلم، تم اے لیلٰیِ خوباں
مجنوں ہوں، ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا

دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی
اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا

جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن
یہ سوز ترا مشعلِ سوزاں سوں کہوں گا

یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا
اس مُکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا

بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہرگاہ
جلدی سوں ترے درد کی درماں سوں کہوں گا

———————

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

تج لب کِ - مفعول - 122
صِفَت لعل - مفاعیل - 1221
بدخشا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221

جادو ہِ - مفعول - 122
ترے نین - مفاعیل - 1221
غزالا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 19, 2008

میر انیس کی چند رباعیاں

کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بگڑا گویّا، قوّال بن جاتا ہے اور بگڑا شاعر مرثیہ گو۔ قوّالوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میر ببر علی انیس نے اردو میں شاہکار مرثیے کہہ کر اس ضرب المثل کو ضرور غلط ثابت کر دیا ہے بلکہ بعض اردو نقادوں کے نزدیک تو وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اور تو اور مولانا شبلی نعمانی کی بھی میر انیس کی شاعری کے متعلق رائے بہت بلند ہے۔
شاعری میر انیس کے خون میں رچی بسی تھی کہ انکے والد میر خلیق اور بالخصوص دادا میر حسن بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ اسی لیے تو آپ نے کہا تھا۔
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں
پانچویں پشت ہے شبّیر کی مدّاحی میں
میر انیس کا نام گو مرثیے کی وجہ سے ہے لیکن آپ نے بہت بلند پایہ رباعیات بھی کہی ہیں اور انہی میں سے چند لکھ رہا ہوں۔
(1)
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے
(2)
گوہر کو صَدَف میں آبرو دیتا ہے
بندے کو بغیر جستجو دیتا ہے
انسان کو رزق، گُل کو بُو، سنگ کو لعل
جو کچھ دیتا ہے جس کو، تُو دیتا ہے
(3)
کس منہ سے کہوں لائقِ تحسیں میں ہُوں
کیا لُطف جو گُل کہے رنگیں میں ہُوں
ہوتی ہے حلاوتِ سُخَن خود ظاہر
کہتی ہے کہیں شکر کہ شیریں میں ہُوں
(4)
کیا کیا دنیا سے صاحبِ مال گئے
دولت نہ گئی ساتھ، نہ اطفال گئے
پہنچا کے لحد تلک پھر آئے سب لوگ
ہمراہ اگر گئے تو اعمال گئے
Meer Anees, میر انیس, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Rubai, رباعی
Meer Anees, میر انیس
(5)
سینے میں یہ دم شمعِ سحر گاہی ہے
جو ہے اس کارواں میں وہ راہی ہے
پیچھے کبھی قافلہ سے رہتا نہ انیس
اے عمرِ دراز تیری کوتاہی ہے
(6)
پہنچا جو کمال کو وطن سے نکلا
قطرہ جو گہر بنا عدن سے نکلا
تکمیلِ کمال کی غریبی ہے دلیل
پختہ جو ثمر ہوا چمن سے نکلا
(7)
خاموشی میں یاں لذّتِ گویائی ہے
آنکھیں جو ہیں بند، عین بینائی ہے
نے دوست کا جھگڑا ہے نہ دشمن کا فساد
مرقد بھی عجب گوشۂ تنہائی ہے
(8)
وہ موجِ حوادث کا تھپیڑا نہ رہا
کشتی وہ ہوئی غرق، وہ بیڑا نہ رہا
سارے جھگڑے تھے زندگی کے انیس
جب ہم نہ رہے تو کچھ بکھیڑا نہ رہا
(9)
عزّت رہے یارو آشنا کے آگے
محجوب نہ ہوں شاہ و گدا کے آگے
یہ پاؤں چلیں تو راہِ مولا میں چلیں
یہ ہاتھ جب اٹھیں تو خدا کے آگے
(10)
گُلشن میں پھروں کہ سیرِ صحرا دیکھوں
یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہُوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
(11)
آدم کو عجَب خدا نے رتبا بخشا
ادنٰی کے لیے مقامِ اعلٰی بخشا
عقل و ہنر و تمیز و جان و ایمان
اِس ایک کفِ خاک کو کیا کیا بخشا
(12)
کیوں زر کی ہوَس میں دربدر پھرتا ہے
جانا ہے تجھے کہاں؟ کدھر پھرتا ہے؟
اللہ رے پیری میں ہوَس دنیا کی
تھک جاتے ہیں جب پاؤں تو سر پھرتا ہے
(13)
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
(14)
افسوس زمانے کا عجَب طَور ہوا
کیوں چرخِ کہن آج نیا دَور ہوا
بس یاں سے کہیں اور چلو جلد انیس
اب یاں کی زمیں اور، فلَک اَور ہوا

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2008

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کا اردو کلاسیکی شاعری میں ایک اپنا مقام ہے۔ اور انکا شمار مستند اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ساری زندگی بانکے پن سے گزاری کہ مشاعروں میں بھی تلوار لگا کر جاتے تھے۔ کیا خوبصورت شاعری ہے آتش کی، انکی ایک غزل جس کے کئی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
Khwaja Haider Ali Aatish
 خواجہ حیدر علی آتش
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مُریدانِ پیرِ مُغاں کیسے کیسے

تپِ ہجر کی کاہشوں نے کیے ہیں
جُدا پوست سے استخواں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

دل و دیدہِ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے

توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کیے ناتواں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
————
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
دہن پر - فعولن - 221
ہِ ان کے - فعولن - 221
گما کے - فعولن - 221
سِ کیسے - فعولن - 221
کلا ما - فعولن - 221 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
تِ ہے در - فعولن - 221
میا کے - فعولن - 221
سِ کیسے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 25, 2008

ولی دکنی کی ایک غزل - دل ہوا ہے مرا خرابِ سُخَن

ولی دکنی کسی زمانے میں اردو کے پہلے شاعر مانے جاتے تھے، گو جدید تحقیق نے انکا یہ مرتبہ تو انکے پاس نہیں رہنے دیا لیکن ولی دکنی کو اب بھی اردو شاعری کا پہلا باقاعدہ اور اہم غزل گو شاعر ضرور مانا جاتا ہے اور مانا جاتا رہے گا۔
ولی دکنی کی ایک خوبصورت غزل جو مجھے بہت پسند ہے:

دل ہوا ہے مرا خرابِ سُخَن
دیکھ کر حُسن بے حجابِ سُخَن

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کُھلا ہے بابِ سُخَن

بزمِ معنی میں سر خوشی ہے اسے
جس کو ہے نشّۂ شرابِ سخن

جلوہ پیرا ہو شاہدِ معنی
جب زباں سوں اٹھے نقابِ سُخَن

گوھر اسکی نظر میں جا نہ کرے
جن نے دیکھا ہے آب و تابِ سخن
ولی دکنی, Wali Dakani, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
ولی دکنی, Wali Dakani
ہرزہ گویاں کی بات کیونکے سنے
جو سنا نغمۂ ربابِ سخن

ہے تری بات اے نزاکت فہم
لوح دیباچۂ کتابِ سخن

لفظِ رنگیں ہے مطلعِ رنگیں
نورِ معنی ہے آفتابِ سخن

شعر فہموں کی دیکھ کر گرمی
دل ہوا ہے مرا کبابِ سخن

عُرفی و انوَری و خاقانی
مجھ کوں دیتے ہیں سب حسابِ سُخَن

اے ولی دردِ سر کبھو نہ رہے
جو ملے صندل و گلابِ سخن
———-
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع
دل ہوا ہے مرا خرابِ سُخَن
دیکھ کر حُسن بے حجابِ سُخَن
دل ہوا ہے - فاعلاتن - 2212
مرا خرا - مفاعلن - 2121
بِ سخن - فَعِلُن - 211
دیک کر حس - فاعلاتن - 2212
نِ بے حجا - مفاعلن - 2121
بِ سخن - فَعِلُن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 27, 2008

غزلِ سودا - گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں

اساتذہ کی زمین میں غزلیں کہنا عام بات ہے، غالب نے جہاں فارسی شاعری میں فارسی شاعری کے اساتذہ کی زمینیں استعمال کی ہیں، ایک غزل سودا کی زمین میں بھی کہی ہے۔ غالب کی غزل “جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں” ایک شاہکار ہے تو سودا کی غزل بھی بہت خوبصورت ہے:

گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں

نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے
سو اک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں

یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں
مرزا رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مرزا رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
غَرَض کفر سے کچھ، نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

حبابِ لبِ‌ جُو ہیں‌ اے باغباں ہم
چمن کو ترے کوئی دم دیکھتے ہیں

نوشتے کو میرے مٹاتے ہیں‌ رو رو
ملائک جو لوح و قلم دیکھتے ہیں

خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھاوے
جو کچھ دوست اپنے سے ہم دیکھتے ہیں

مٹا جائے ہے حرف حرف آنسوؤں سے
جو نامہ اسے کر رقم دیکھتے ہیں

اکڑ سے نہیں‌ کام سنبل کے ہم کو
کسی زلف کا پیچ و خم دیکھتے ہیں

ستم سے کیا تو نے ہم کو یہ خوگر
کرم سے ترے ہم ستم دیکھتے ہیں

مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سودا
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں
(مرزا رفیع سودا)
————
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں
گدا دس - فعولن - 221
تِ اہلے - فعولن - 221
کرم دے - فعولن - 221
ک تے ہے - فعولن - 221
ہ مَپنا - فعولن - 221 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ہِ دم ار - فعولن - 221
قدم دے - فعولن - 221
ک تے ہے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 25, 2008

غلام ہمدانی مصحفی کی ایک غزل - ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا

تجھے کس نے روک رکھّا، ترے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا

ہوئی تنگ اس کی بازی مری چال سے، تو رخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اس سے مات کرنا
Mushafi, مصحفی، urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Mushafi, مصحفی

یہ زمانہ وہ ہے جس میں، ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے گلۂ حیات کرنا

جو سفر میں ساتھ ہوں ہم تو رہے یہ ہم پہ قدغن
کہ نہ منہ کو اپنے ہر گز طرفِ قنات کرنا

یہ دعائے مصحفی ہے، جو اجل بھی اس کو آوے
شبِ وصل کو تُو یا رب، نہ شبِ وفات کرنا
(غلام ہمدانی مصحفی)
——–
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن فَعِلاتُ فاعِلاتُن
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 1211 2212 1211 2212
تقطیع
ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
ت رِ کو چِ - فعلات - 1211
ہر بہانے - فاعلاتن - 2212
مُ جِ دن سِ - فعلات - 1211
رات کرنا - فاعلاتن - 2212
کَ بِ اس سِ - فعلات - 1211
بات کرنا - فاعلاتن - 2212
کَ بِ اس سِ - فعلات - 1211
بات کرنا - فاعلاتن - 2212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 9, 2008

غزلِ داغ - مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ

فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک خوبصورت غزل۔

مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ

مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چُھپا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
داغ دہلوی، Dagh Dehlvi
دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ

تاریکیٔ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ

مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا
رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ
داغ دہلوی
——–
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ
ما نندِ - مفعول - 122
گل ہِ میرِ - فاعلات - 1212
جگر مے چَ - مفاعیل - 1221
راغِ داغ - فاعلان - 1212
پروانِ - مفعول - 122
دے ک تے ہِ - فاعلات - 1212
تماشاء - مفاعیل - 1221
باغِ داغ - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 3, 2008

غزلِ مرزا غالب - درد ہو دل میں تو دوا کیجے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے

دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے

موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
——–
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع -
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
درد ہو دل - فاعلاتن - 2212
مِ تو دوا - مفاعلن - 2121
کیجے - فعلن - 22
دل ہِ جب در - فاعلاتن - 2212
د ہو تُ کا - مفاعلن - 2121
کیجے - فعلن - 22
-----

یہ خوبصورت غزل ملکہٴ ترنم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں






مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 9, 2008

غزل سراج اورنگ آبادی

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی
(سراج اونگ آبادی دکنی)
——–
بحر - بحر کامل مثمن سالم
افاعیل - مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن
اشاری نظام - 21211 21211 21211 21211
تقطیع -
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
خَ بَ رے تَ حی - مُتَفاعِلُن - 21211
یُ رِ عشق سن - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ جنو رہا - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ پری رہی - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ تُ تو رہا - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ تُ مے رہا - مُتَفاعِلُن - 21211
جُ رہی سُ بے - مُتَفاعِلُن - 21211
خَ بَ ری رہی - مُتَفاعِلُن - 21211
مزید پڑھیے۔۔۔۔