Einstein, آئن سٹائن |
حکیم آئن سٹائن (1)۔
جلوۂ می خواست مانندِ کلیمِ ناصبُور
تا ضمیرِ مستنیرِ اُو کشود اسرارِ نُور
وہ (آئن سٹائن) بے صبر کلیم (حضرت مُوسیٰ) کی مانند جلوہ چاہتا تھا یعنی حقیقت کو دیکھنے کیلیے بے قرار تھا، تاآنکہ نور سے استفادہ کیے ہوئے اسکے ضمیر (حقیقت کو دیکھے ہوئے ضمیر) نے نور کے اسرار و رموز سب پر کھول دیئے۔
از فرازِ آسماں تا چشمِ آدم یک نفَس
زود پروازے کہ پروازَش نیایَد در شعُور
آسمانوں کی بلندی سے لیکر آدمی کی آنکھ تک (کا فاصلہ روشنی صرف) ایک لمحے میں طے کرتی ہے، اور وہ اتنی تیزی سے پرواز کرنے والی (تیز رفتار) ہے کہ اسکی پرواز شعور کہ اندر ہی نہیں آتی۔
خلوَتِ اُو در زغالِ تیرہ فام اندر مغاک
جلوَتَش سوزَد درختے را چو خس بالائے طُور
اسکی خلوت میں یہ تاثیر ہے کہ وہ گڑھوں اور کانوں کے اندر سیاہ فام کوئلہ پیدا کر دیتی ہے، اور اسکا جلوہ کسی درخت کو کوہِ طور کی بلندی پر خس و خاشاک کی طرح جلا دیتا ہے۔ روشنی کی رفتار نظم کرنے کے بعد علامہ اسی روشنی یا نور کو اپنے مطلب کے طور پر بیان کر رہے ہیں کہ انکی نور سے کیا مراد ہے۔
بے تغیّر در طلسمِ چون و چند و بیش و کم
برتر از پست و بلند و دیر و زُود و نزد و دُور
یہ (نور) کیا اور کیسے اور زیادہ اور کم کے طلسم میں (زمان و مکاں میں جاری و ساری) ہونے کے باوجود بے تغیر ہے، یہ پست اور بلند، دیر اور جلدی اور نزدیک اور دور سے برتر ہے۔
در نہادَش تار و شید و سوز و ساز و مرگ و زیست
اہرَمَن از سوزِ اُو وَز سازِ اُو جبریل و حُور
یہ (نور) اپنے اندر، تاریکی اور روشنی، سوز اور ساز اور زندگی اور موت رکھتا ہے، شیطان اسکے سوز سے اور جبریل اور حوریں اسکے ساز سے وجود میں آئے، یعنی سب کچھ اسی سے ہے۔
من چہ گویَم از مقامِ آں حکیمِ نکتہ سنج
کردہ زردشتے ز نسلِ مُوسیٰ و ہاروں ظہُور (2)۔
میں اس رمز آشنا حکیم کی کیا تعریف بیان کروں، بس یہ کہ وہ ایک ایسا زردشت ہے جس نے موسیٰ اور ہارون کی نسل میں ظہور کیا ہے۔ آئن سٹائن کو علامہ کا یہ ایک زبردست خراجِ تحسین ہے کہ قادر الکلام شاعر و فلسفی و عالم ایک دوسرے عالم کے بارے میں فرما رہا ہے کہ میں اس کی اور اسکی عظمت کی تعریف کرنے سے قاصر ہوں اور دوسرے مصرعے میں اپنی شاعری اور اوجِ خیال کا ایک منہ بولتا اور اچھوتا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے، آئن سٹائن یہودی تھا لیکن علامہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک ایسا یہودی ہے جو کہ نور کے متعلق اپنے نظریات کی وجہ سے زردشت ہے، جس نے نور کے متعلق ہزاروں سال پہلے اپنے نقطۂ نظر بیان کیا تھا۔
یہ بات بھی سوچنے کے لائق ہے کہ مصرعے میں تو علامہ نے آئن سٹائن کو یہ لکھا کہ وہ موسیٰ اور ہارون کی نسل میں سے ہے لیکن حواشی میں پھر بھی نہیں لکھا کہ وہ یہودی تھا بلکہ لکھا کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہے، مطلب ایک ہی ہے لیکن کیا علامہ نے جان بوجھ کر 'یہودی' کا لفظ استعمال نہیں کیا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اقبال کے شارحین تو آئن سٹائن کو بھی نہیں بخشتے۔
----------
حواشی از علامہ اقبال
(1)۔ آئن سٹائن: جرمنی کا مشہور ماہرِ ریاضیات و طبیعات جس نے نظریۂ اضافیت کا حیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔
(2)۔ حکیم آئن سٹائن بنی اسرائیل سے ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔